کروناء تو ایک طبی وباء ہے جو دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ دنیا اسکے مقابلے میں مصروف ہے، اسی دوران عید بھی آگئی ، عید جسکا مطلب ہی ــ ’’ خوشی ‘‘ ہے۔ پی آئی اے کے حادثے میں بے گناہوںکی شہادت کی بناء پر وہ عید بھی ماند پڑگئی۔ہر ذی شعور کی آنکھ اشک بار رہی ہے اور ہونا بھی چاہئے مگر زیادہ تکلیف دہ ہمارے رویے ہیں۔ پائلٹ کی غلطی تھی، ٹاور کی غلطی تھی، سول ایو ی ایشن کی غلطی تھی، پی آئی اے کی غلطی تھی ،الزام تراشیاں، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا۔ خوامخواہ کے مسائل پر اپنی ’’ناچیز رائے ‘ ‘ دینا ہمارا معمول بن چکا ہے۔ سیاسی طو ر پر مخالفت کو طے شدہ معاملات میں بھی حاوی کردیتے ہیں۔ 1998 ء میں ایٹمی دھماکے ہوئے ، جس پر قوم خوش ہوتی ہے۔ آج 22 سال گزرنے کے بعد بحث شروع کردی گئی ہے۔ ملک کے ایٹمی طاقت بننے کے قابل فخر اقدام کو متنازعہ صرف سیاسی دشمنی کی بنا پر بنایا جارہا ہے تاکہ نواز شریف کا کریڈٹ کم کیا جاسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایٹمی طاقت بنانے کی ابتداء شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کی ۔ ڈاکٹر قدیر کوپاکستان لانا انہی کا کام تھا۔ اس سے کو ن انکار کرسکتا ہے کہ ہنری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو کودھمکی دی کہ ’’ہم تمھیں نشان عبرت بنادینگے اور مرحوم ضیا الحق نے عدلیہ کے ساتھ ملکر نشان عبرت بنا بھی دیا ، جو لفظ ’’دھماکہ ‘‘ ہے وہ ایٹمی طاقت ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ یقینا نواز شریف ہی نے کیا۔اس میںدو رائے نہیں ، پاکستان میں صحافت کے ستارے ڈاکٹر مجید نظامی کے وہ الفاظ بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو نواز شریف کو تذبذب کا شکار دیکھتے ہوئے انہوں نے کہے کہ ’’میاںصاحب دھماکہ کردیںورنہ قوم آپکا دھماکہ کر دیگی ‘‘ ان طے شدہ معاملات پر بحث صرف بکواس سے زیادہ کچھ نہیں ، یہ بحث کرکے ہم اپنی آنے والی نسل کو مایوس اور کنفیوژ کرتے ہیں ، ہمارے سیاست دانوں سے کوئی بعید نہیں کہ آئندہ سال اس بات کو بحث کا خدانخواستہ موضوع بنا لیںکہ پاکستان کس نے آزاد کرایا تھا ۔ جسکے لئے ’’نیا پاکستان کا نعرہ مارکیٹ میں موجودہے ۔ اب شیخ رشید بھی ایٹمی دھماکہ کا کریڈٹ لینے لگیں تو ـ’’حد ‘‘ہی ہوگئی۔ ملک کو درپیش مسائل کا حل آج کی سیاسی ’’لاٹ ‘‘ کے پاس نہیں اسلئے بیانات ، حکومتی بنچوںکو خوش کرنے کیلئے داغے جاتے ہیں۔ نواز شریف کی کوئی تصویر ، چلتے پھرتے یا چائے پیتے ہوئے دیکھ لیںتو بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے ۔ اگر وہ بیمار نہیں ہیں تو واپس ’’لاسکتے ہوتو لے آئو واپس ‘‘ حکومت کیلئے اس سے بہتر موقع نہیں ہے۔
چونکہ حزب اختلاف نام کی کوئی چیز ملک میں نہیں ، چھوٹے موٹے بیانات تو جمہوری ملکوں میں ہوا ہی کرتے ہیں ۔ تین ماہ میں کروناء میںلاک ڈائون ہونے نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کرپائے ، اگر فیصلہ بھی کیا تو حکومتی رٹ نہ ہونے کی بناء پر بازاروںمیں بھر پور رونق ر ہی۔ عمل درآمد کرانے کیلئے نہ پولیس نظر آئی اور نہ ہی وہ ’’دس لاکھ ‘‘ٹائیگرز مدد کو نظر آئے ۔ ستم اور بچگانہ عمل تو یہ ہے کہ ’’ٹائیگرز ‘‘ کی نامزدگی سعودی عرب میں بھی کردی گئی ہے کچھ ایسے نوٹیفیکیشن نظر سے گزرے جس میں پی ٹی آئی کے لوگوںکو نامزد کیا گیا ، اب وہ یہاںکیا کرینگے ،اسکا پتہ نہیں، انکی نامزدگیاں قونصلیٹ اور سفارت خانوںکیلئے مشکلات پیدا کرینگی ۔ بیرون ملک بے روزگار ہونیوالے زندہ اپنے ملکوں کو جانا چاہتے ہیں۔ ان زندہ لوگوں کیلئے یا کرونا کی وجہ سے فوت ہونیوالے پاکستانیوںکے جسد خاکی لیجانے کیلئے قومی ائرلائنز کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں ہم بیرون ملک پروازیں چلا رہے ہیں۔ ہمیں دکھ ہے بیرون ملک پاکستانیوں کے ، ٹکٹ مہنگے ہیں۔ سعودی عرب میں سفیر پاکستان راجہ علی اعجاز کہتے ہیں ، اگر کوئی ٹکٹ مہنگا دے تو مجھے براہ راست شکائت کریں میں اس پر ایکشن لونگا ، جبکہ وزیر ہوا بازی ہوا میں بیرون ملک سے زرمبادلہ بھیجنے والوں کے زخمو ںپر نمک پاشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ اگر ٹکٹ مہنگے ہیں تو پاکستان نہ آئیں وہیں رہیں ۔
اب بحث چل پڑی ہے کہ فضائی حادثے میںقصور کس کا تھا ، یہ بحث بھی آئندہ چند روز میں ہمارے ہاںہونے والی گزشتہ ستر سالوںکی تحقیقات کی طرح داخل دفتر ہوجائیگی۔
ہمارے ملک میںہر وہ جرم کرنے والے موجود ہیں جس کا ارتکاب دنیا کے کسی بھی ملک میں ہو سکتا ہے یا ہوتا ہے البتہ ایک جرم ایسا ہے جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتایا پھر شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وطن عزیزکے اکثرشعبوں میں مختلف عہدوں پر ایسے ذمہ داران کومسلط کر دیاجاتا ہے جنہیں اپنی ذمہ داریوں کی الف بے کا بھی علم نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں ایسی مثالیں موجود ہیں جنہیں ہم لوگوں کو قہقہوںکا موقع فراہم کرنے کیلئے مختلف محفلوں میں لطیفے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔مثلاً کسی زیر تعلیم کو وزیر تعلیم لگانا ، وغیرہ ہمارے ہاں دوسرا بڑا عیب یہ ہے کہ خواہ کوئی بھیانک واردات ہو یا کوئی سانحہ رونما ہوجائے جیسے ماضی میں لانڈھی کا ریل حادثہ ہوا، کراچی میں کئی منزلہ عمارت زمیں بوس ہوئی،کچھ عرصے کے بعد پھر ہوئی اور کچھ عرصے کے بعد پھر ہوئی۔ ماضی میں ہی کراچی میں انسانوں کی کالونی کو گھیرکرمکانوں کو آگ لگائی گئی اور لوگوںکو گھروںسے نکلنے نہیں دیا گیا، پنجاب میں پُل گرگیا،کراچی میںفیکٹری کو آگ لگا کر 269محنت کشوں کو زندہ جلا دیا گیا، تیز گام کی بوگیوں میں آگ لگ گئی، ٹرین کے ذریعے ایک اہم شخصیت خطرناک اسلحہ اسمگل کروانے میں ملوث پائی گئی۔ کراچی میں کئی سالوں تک جیتے جاگتے انسانوں کو ’’بوری کے گھاٹ‘‘ اتارا جاتا رہا، گوشت پوست کے انسانوں کو ڈرل مشین سے سوراخ کر کے مارنے اور لاش سڑک پر پھینکنے کا ’’مشغلہ‘‘جاری و ساری رہا۔ یوںنصف لاکھ سے زائدافراد کوموت کی نیند سلا کر ان گنت مائوں کی گود ویران کر دی گئی، کتنی ہی دلہنوں کے سہاگ چھین لئے گئے، کتنی ہی خواتین کو بیوگی کی چادر اوڑھا کرانہیں بھیک مانگنے پر مجبورکر دیا گیا۔ کراچی میں 12مئی کو سفاک اور بے باک انداز میں ’’سربریت‘‘ کا مظاہرہ کیاگیا،لاہور میں سانحہ ماڈل ٹائو ن جیسا ’’پکچرائزڈ قتل عام‘‘ ہوا۔یہ وہ چند جرائم ہیں جن کے ارتکاب کے فوری بعد اخبارات کے صفحات، ریڈیوکے اسپیکروں اور ٹی وی کی اسکرینوں سے ایک ہی بات کو یقینی بنانے کے وعدے سامنے آتے تھے اور آ رہے ہیں کہ مجرموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، انہیں نشانِ عبرت بنا دیاجائے گا۔ یقین جانئے اگر ہمارے ہاں مجرموں کو سچ مچ نشان عبرت بنادیا گیا ہوتا تو آج ملک میں جا بجا عبرت آباد، عبرت سوسائٹی، عبرت ٹائون، عبرت کالونی، عبرت چوک، عبرت چورنگی،، عبرت قبرستان، شاہراہ عبرت، عبرت اسپتال، عبرت اسکول، عبرت ڈگری کالج، تھانہ عبرت اور نجانے کیسے کیسے نشانِ عبرت دکھائی دیتے مگرایسا نہیں ہوا، بس ایک واقعہ یاد ہے جب ایک جرنیلی حکومت نے ’’پپو‘‘ کے قاتلوں کو نشان عبرت بنایا تھا۔یہاں اس امر کی نشاندہی انتہائی ضروری ہے کہ اگر ہمارے صاحبان،مشتعل عوام کے دہکتے جذبات کوٹھنڈا کرنے کیلئے فائر بریگیڈکا کام کرنیوالے بیانات دینے کی بجائے مجرموں کو نشان عبرت بنانا شروع کر دیتے تو آج کہیں جرم نظر آتا اور نہ مجرم۔
پی آئی اے کے دردناک حادثے کا سبب کچھ بھی ہو سکتا ہے تاہم، اللہ تعالیٰ نہ کرے کہ ایسا ہوا ہو،اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کا سبب کسی بھی ذمہ دار کی جانب سے برتی جانے والی کوتاہی ہے تو اسے سو سے زائد انسانی جانوں کا قاتل قرار دے کر نشان عبرت بنانے میں لمحہ بھر کی تا خیر نہیں کی جانی چاہئے۔ کیا وہ پی آئی اے کو پابند کرنے والی کوئی ہستی ہے مملکت خداداد میںکہ وہ آئندہ 50سال تک خطیر رقم ہر شہید کے اہل خانہ کو ادا کرتی رہے۔اسی طرح بیگناہوں کے قاتلوں کو سزائے موت دی جاتی اورمقتول کے گھر والوں کو قاتل کے گھر والے 50 سال تک مقتول کی اولادوں کے اخراجات برداشت کرتے ، انکوائیریاں تو بہت ہو رہی ہیں۔ مثلا چینی ، آٹا ، بجلی ، دوائیاں مگر اسکی تحقیقا تی رپورٹیںکب منظر عام پر آئینگی واللہ عالم ،اب تحقیقاتی کمیشن حزب اختلاف کو بھی شامل کربیٹھا ہے اسلئے اسکے فوری نتائیج آنا ممکن نہیں اورہمارے ہاں اسکی روائت نہیںکہ ملکی خزانہ لوٹنے والے کو سزادی جاسکے ۔اوراب تو آٹا، چینی ، بجلی ، دوائیوں کے کاروبار میںخود حکومتی ایماندار، لوگ شامل ہیں ، جنہیں عدالتوں نے تو کہا کہ یہ صادق اور امین نہیں مگر وہ حکومت کے ساتھ چپکے رہے یا چپکائے رکھا گیا اور ہر ’’ضرورت کے وقت ‘‘ حکومت کا ساتھ دیتے رہے ۔ اگر حزب اختلاف ہی اس اربوںروپے کی کرپشن میں شامل ہوتی تو کب کی ’’اڈیالہ ‘‘کی ہوا کھا چکی ہوتی ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024