کچھ بھی نہ بدلا’ نہ بہار آئی’ آس امید کے برگ و گلاب سوکھ رہے ہیں خزاں اور پت جھڑ کا ایسا سماں ہے تبدیلی کے خواب دکھانے والے کونوں کھدروں میں منہ چھپاتے پھر رہے ہیں ۔ ایک کے بعد ایک ایسا سکینڈل آرہا ہے کہ لوگوں کے ارمان کا جنازہ ہی نکل گیا ہے۔ کپتان کی تبدیلی لوٹ مار سے داغدار حکومتوں کی راہ پر چل نکلی ہے۔ زرتاج گل کی بہن شبنم کے ذریعے دہشت گردی ختم کرانے کی بھی خوب سوجھی ہے، یہ تو کسی مزاحیہ ڈرامے کا کوئی منظر محسوس ہوتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ جرم محض سفارشی خط لکھنا ٹھہرا ؟ سو واپس ہوا؟ لیکن وزیر کے غلط اقدام کا دفاع جاری ہے؟ نعیم الحق وضاحت کو آئے تو انہیں بھانجے کی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں تقرری اور برق رفتار ترقی پاکر کراچی میں تعیناتی کے سوال کا سامنا کرنا پڑا۔
زرتاج گل ماحولیات کی وزیر ہیں۔ ان کے سٹاف کے ذریعے لکھا گیا خط، وزیر صاحبہ کی ’’عقل مندی‘‘ کا شاہکار ہے۔ سرکاری نظم ونسق اور خط وکتابت سے آگاہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسے خط ’آبیل مجھے مار‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ چالاک بیوروکریسی نے انکی ’عقل مندی‘ ’ساری دنیا‘ کو دکھانے کی چال چلی۔ ریکارڈ پر ایسے خط نہیں آتے۔اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ محترمہ شبنم گل پر ماضی میں کسی کا مقالہ چرانے کا بھی الزام عائد ہوا تھا۔ 2007 میں یہ قصہ منظرعام پرآیا تھا جب پنجاب یونیورسٹی نے شعبہ کشمیریات کی محققین شبنم گل اور ان کے ساتھ عندلیب صابرہ کیخلاف آزادجموں وکشمیر کے سماجی بہبود اور خواتین کی ترقی کے محکمے کے سعید احمد کی شکایت پر کارروائی کی تھی۔ شکایت گزار سعید احمد کے مطابق انکے ایم اے کے مقالہ ’’کے ایچ خورشید کی زندگی اور خدمات‘‘ اور ’’کشمیر کی سیاسی جماعتیں‘‘ کو ان دونوں خواتین نے ان کی تحقیقی مواد کو چوری کرکے ’’تاریخ کشمیر، 1947ء سے اب تک‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں 2006ء میں شائع کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے معاملے کی چھان بین کی اور تحقیقی مواد چوری کرنے پر سخت سزا کی سفارش کی۔ رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی نے شبنم گل کا ایم اے کشمیریات میں داخلہ منسوخ کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی میں مستقبل میں پڑھانے کی کسی بھی نوکری کے لئے دونوں کو نااہل قرار دیا۔ نصرت نثار کو چوری شدہ مواد پر مبنی کتاب کی تمہید یا ابتدائیہ تحریر کرنے پر تنبیہہ کی گئی۔
سوشل میڈیا پر زرتاج گل کا خط ’وائرل‘ ہوگیا اور ’صاف چلی ، شفاف چلی‘ حکومت کی ’بینڈ‘ بج گئی۔ کپتان کے معاون خاص نعیم الحق نے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور خبر چل گئی کہ وزیراعظم نے ’ایکشن لے لیا‘۔ انقلابی حکومت کے انقلابی اقدام کی خبر کچھ یوں شائع ہوئی۔ ’’وزیراعظم عمران خان نے وزیر مملکت زرتاج گل کی بہن کی نیکٹا میں تعیناتی پر ایکشن لیتے ہوئے زرتاج گل کو نیکٹا کو لکھا گیا خط واپس لینے کی ہدایت کردی۔‘‘ دفاع کے جذبے سے لیس وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق کا کہنا ہے کہ ’’زرتاج گل نے اپنی بہن کی تقرری کیلئے نیکٹا کوخط لکھا تھا، اس طرح کا اقدام پی ٹی آئی کے اصولوں کیخلاف ہے، پی ٹی آئی نے ہمیشہ اقرباپروری کی مخالفت کی ہے۔‘‘ شبنم گل کی تعیناتی پر زرتاج گل کا کہنا تھا کہ ’’نیکٹا میں تعیناتی کسی خصوصی برتائو کا نتیجہ نہیں ، اگر کسی وزیر کی فیملی میں کوئی قابل ہے تو کیا اس کیلئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں؟‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ایس او کی طرف سے سیکریٹری داخلہ میجر (ر) اعظم سلمان خان کو خط بھجوایا گیا تھا جس میں یہ واضح لکھا ہے کہ وزیرموصوفہ نے سیکریٹری داخلہ کو ٹیلی فون کیاتھا اور ٹیلی فون پر ہونیوالی اسی گفتگو کے نتیجے میں شبنم گل کا ’سی۔وی‘ بھجوایاگیا۔ خط کی واپسی کو ’انقلابی حکومت کا انقلابی اقدام‘ مان بھی لیاجائے اور اسے درگزر کرتے ہوئے رعایتی نمبروں پر تمام دفاعی ہرکاروں کی وضاحتیں ’آنکھیں بند‘ کرکے قبول کرلی بھی جائیں تو کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ’اوپر ایماندار وزیراعظم‘ کے ہوتے اس کا وزیر یہ کرے؟ مزید حیرت اس بات کی ہے کہ سیکریٹری داخلہ میجر(ر) اعظم سلمان خان نے وزیر موصوفہ کے فون کو بڑی پزیرائی دی۔ ان کا ’میرٹ‘ اور ’شفافیت‘ کہاں گئی؟ یہ جرم محض وزیر کا نہیں بلکہ جنہوں نے اس حکم کی پاسداری کی اور اس پر عمل کیا، وہ بھی شریک جرم ہی کہلائیں گے۔ یہ وہ تاثر ہوتا ہے جو نیچے تک عوام میں جاتا ہے، امتحان اور نوکری کیلئے گھر سے نکلنے والے طالب علم کے ذہن میں یہ سوال ہوتا ہے کہ پڑھنے کے بجائے کوئی سفارش ڈھونڈو؟ کیا میجر (ر) اعظم سلمان خان تبدیلی ٹیم کا حصہ ہوکر اتنا بھی نہیں جانتے؟
سیکریٹری داخلہ پر مجھے یہ بھی حیرت ہے کہ انسداد دہشتگردی کیلئے بنائے گئے ادارے یعنی ’نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی‘ (نیکٹا) میں گریڈ انیس میں ان کو ڈائریکٹر تعینات کیاگیا۔ کیا دہشتگردی کے انسداد کیلئے یہ رویہ ہے؟ کیا اس انتہائی حساس اور اہم عہدے کیلئے یہ ہی انداز ہونا چاہئے؟ ’عذر گناہ بدترازگناہ‘ کے مترادف وضاحت کی گئی کہ انکی تعلیمی قابلیت انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تھی، اس لئے میرٹ پر ان کا تقرر عمل میں آیا۔ خود نعیم الحق نے ایک پروگرام میں یہ اعتراف کرلیا کہ انکی پی ایچ ڈی ابھی مکمل نہیں۔ حیرتوں کی حیرت تو یہ ہے کہ دہشتگردی جو ملک کیلئے ایک وبال جان، ایک سازش اور ایک ایسا ناسور ہے جس کی بناء پر ہم ہزاروں قربانیاں دے چکے ہیں، اربوں ڈالر کا نقصان کرابیٹھے ہیں، قومی وجود پر کتنے ہی سنگین گھائو لگے، مسلح افواج، رینجرز، پولیس، گمنام ہیروز اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے کتنے ہی افسراور اہلکار فرض کی راہوں میں قربان ہوگئے، یہاںسفارش پر ڈائریکٹر نیکٹا مقررکیاجارہا ہے؟
میجر (ر) اعظم سلمان سے یہ سوال ہے۔ تبدیلی جب آتی کہ سیکریٹری داخلہ اس خط کو مسترد کرتے اور کہتے کہ وہ قومی ادارے کے ساتھ یہ کھلواڑ نہیں ہونے دینگے۔ سپریم کورٹ کا بھی واضح حکم موجود ہے کہ سرکاری افسران کوئی غیرقانونی حکم ماننے کے پابند نہیں۔ سویلینز تو خیرجیسے ہیں سو ہیں لیکن میجر (ر) اعظم سلمان کے بارے میں کیا کہا جائے؟ کمال کی بات تو یہ بھی ہے کہ اتنے افسروں نے اس صفحے پر دستخط کئے ہیں، کسی مائی کے لعل نے ’تبدیلی‘ اور ’ریاست مدینہ‘ کا جذبہ نہ دکھایا۔ اسے کہتے ہیں ’تبدیلی‘؟
اس واقعہ سے عمران خان کا یہ فلسفہ بھی مبہم ہوگیا ہے کہ ’اوپر بندہ ٹھیک بیٹھا ہو، ’’تکڑا‘‘ وزیراعظم ہو تو نیچے خود بخود چیزیں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔‘‘
کوئی وزیر براہ راست سعودی عرب کو اپنے حلقے میں کام کرانے کی چٹھیاں لکھ رہا ہے، کسی کو یہ پتہ نہیں کہ کلبھوشن ابھی تک پاکستان کی حراست میں ہے یا چھوڑ دیاگیا ہے؟ ایک وزیر کی دوسرے سے نہیں بن رہی؟ جس طرف دیکھیں مایوسی کا درجہ مزید بڑھانے کو کافی۔ اب اس سے زیادہ اور کیا تبدیلی آئیگی کہ عمران خان خود تبدیل ہوگئے ہیں؟؟ اردو کے استاد جعفر بلوچ کا بھولا بسرا شعر یاد آ رہا ہے …؎
جب سے اے تحسین فراقی تیرے سپرد ہوا
عبدالماجد دریا بادی’ دریا برد ہوا
یہاں سب کچھ دریا برد ہو رہا ہے کپتان کے خیال و خواب ‘عوام کی تبدیلی کی آرزوئیں بس یہ کہ شبنم شعلہ فگن ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38