فرض کیجیے کہ پانامہ لیکس سے متعلقہ دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے عدالت عظمی کے بینچ کے پانچوں ججز ایک ہی جیسا فیصلہ دیتے، فرض کیجیے کہ یہ فیصلہ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ہوتا، مزید فرض کیجیے کہ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر وزیراعظم کے سامنے صرف دو ہی راستے ہوتے۔ اول یہ کہ فیصلے کے خلاف مزاحمت اور دوم یہ کہ عدالتی فیصلے پر اس کی روح کے عین مطابق عملدرآمد! اب یہاں وزیراعظم کی جانب سے مزاحمت بھی دو طرح کی ہوسکتی تھی، اول قانونی مزاحمت اور دوم سیاسی مزاحمت! وزیراعظم کی جانب سے قانونی مزاحمت دراصل نرم مزاحمت ہوتی، جس میں عدالتی فیصلے کیخلاف اپیل کی جاتی، قانونی موشگافیوں کے ذریعے فیصلے میں کیڑے نکالے جاتے، اپیل کے دوران سماعت کو حیلوں بہانوں سے لٹکایا جاتا، لیکن قانونی مزاحمت کے برعکس سیاسی مزاحمت قدرے سخت مزاحمت ہوتی۔ اِس سخت مزاحمت میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کی آڑ لے کر عدالت کو بھی سیاسی لڑائی میں گھسیٹ لیاجاتا اور اِس فیصلے کی اخلاقی ساکھ پر سوال اٹھائے جاتے!اب یہ بھی فرض کرلی جائے کہ وزیراعظم نواز شریف مزاحمت کی بجائے عدالتی فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی راہ اپناتے اور حکومت کے اس سب سے اعلیٰ ترین منصب سے مستعفی ہوکر گھر چلے جاتے!
فرض کیجیے کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟یقینا قومی اسمبلی میں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ رکھنے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے کسی رکن اسمبلی کی قسمت کھل جاتی۔ قومی اسمبلی میں موجود حمزہ شہباز کے ذریعے گھر کی بات گھر میں ہی ختم کرلی جاتی، خواجہ آصف عارضی طور پر عہدہ سنبھال لیتے، چودھری نثار علی خان پر اعتبار کرلیا جاتا، خرم دستگیر کے سر پر دست شفقت رکھ دیا جاتا اورپروفیسر احسن اقبال بھی قابل اعتماد ہی ٹھہرتے! لیکن جس کسی کے سر پر بھی ہما بیٹھتا تو ہما کا بیٹھنا عارضی ہی ہوتا اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ دو تین ماہ کیلئے! اِس دوران میاں شہباز شریف کو مرکز میں لانے کی تیاریاں کرلی جاتیں یا پھر مریم نواز کیلئے کوئی حلقہ نیابت خالی کرالیا جاتا، یا پھر یہ بھی ہوتا کہ اسحق ڈار کو ہی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سے نکال کر ایوان زیریں میں پہنچادیا جاتا، لیکن اس سے بڑھ کر بھی ایک کام ہوسکتا تھا اور وہ یہ تھا کہ وزیراعظم استعفا دینے کے بعد ایک بار پھر عوام کی عدالت میں چلے جاتے ، بڑے بڑے جلسے کیے جاتے، اور دوبارہ منتخب ہوکر اسی قومی اسمبلی سے ایک بار پھر وزیراعظم منتخب ہوجاتے!اسی اسمبلی میں دوبارہ منتخب ہونے کا یہ وہ نقطہ تھا جس پر کسی نے غور نہیں کیا۔بس سب نے سمجھا کہ اگر فیصلہ مخالف آیا تو مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوجائے گی اور صرف مسلم لیگ ن کی حکومت ہی ختم نہیں ہوگی بلکہ میاں نواز شریف کی سیاست بھی ختم ہوجائے گی اور پاکستانی سیاست میں شریف خاندان ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قصہ پارینہ بن جائے گا۔اس سارے فرضی معاملات میں لیکن یہ اس نقطے پر بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی کہ جس وزیراعظم نے 1999ء میں اکتوبر کی یخ بستہ شب تنی ہوئی سنگینوں کے سامنے بھی استعفا نہیں دیا تھا تو وہ بھلا اتنی آسانی سے ہتھیار کیسے پھینک دے گا؟ فرض کیجیے کہ اب جے آئی ٹی بھی وہی کرتی ہے، جو پانامہ لیکس سے متعلق دائر درخواستیں سننے والے پانچ رکنی بینچ کے دو ججز نے کیا ۔ فرض کیجیے کہ جے آئی ٹی کی حتمی رپورت پیش کیے جانے کے بعد بینچ میں شامل باقی تین ججز کی رائے بھی بدل جاتی ہے، تو پھر کیا ہوگا؟ ایسا ہوا تو قومی اسمبلی میں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ رکھنے والی مسلم لیگ ن کے کسی رکن اسمبلی کی عارضی طور پر قسمت کھل جائے گی۔سب سے آسان تو یہ ہوگا کہ شریف فیملی حمزہ شہباز پر اتفاق کرلے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو خواجہ آصف عارضی طور پر عہدہ سنبھال لیں گے، چودھری نثار علی خان پر بھی اعتبار نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی، خرم دستگیر بھی گھر کا بچہ ہے اورپروفیسر احسن اقبال جیسے درجنوں وفادار اور قابل اعتبار ارکان موجود ہیں، لیکن ہوگا وہی کہ جس کسی کے سر پر بھی ہما بیٹھے گا تو مستقل نہیں بلکہ عارضی طور پر ہی بیٹھے گا اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ دو تین ماہ کیلئے! اِس دوران میاں شہباز شریف، مریم نواز یا سینیٹر اسحق ڈار کو قومی اسمبلی کے حلقے سے منتخب کرانے کا آپشن بھی موجود ہے، لیکن یہ سب کچھ یقینا اُس وقت ہی ہوسکتا ہے جب وزیراعظم نواز شریف مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے کا ذہن بناچکے ہوں، لیکن ساڑھے تین دہائیوںپر محیط وزیراعظم نواز شریف کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسا ممکن نہ ہوسکے گا۔لہٰذا آپ فرض کیجیے کہ اگر وزیراعظم نواز شریف نے استعفا دینے کے بعد ایک بار پھر عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کرلیا اور بڑے بڑے جلسوں کے بعد اپنی خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست سے دوبارہ خود ہی امیدوار بن گئے اور اُس کے بعد اسی قومی اسمبلی میں نواز شریف نے ایک بار پھر وزیراعظم منتخب ہونے کا فیصلہ کرلیا تو؟یقینا یہ ایک بڑا ’’تو‘‘ ہے جس کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔
اس میں کچھ شبہہ نہیں کہ گزشتہ ایک برس کے دوران پانامہ لیکس کو جس طرح پاکستان میں ہوا بناکر پیش کیا گیا، اس کی پاکستابن کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پانامہ لیکس کے ہوا بننے کے بہت سے گفتنی اور ناگفتنی عوامل اور محرکات تھے، جو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی کے بعد سے اب تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ نجی محفل میں سینیٹر نہال ہاشمی کا جوشیلا خطاب ہو یا پانامہ عملدرآمد کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کی جانب سے اس خطاب پر جذبانی ردعمل ، یہ سب اُنہی عوامل اور محرکات کا نتیجہ ہیں۔ یہ کیس ہوا اس لیے ہے کہ سارے کا سارا کیس اب قطری شہزادے کے ایک بیان کے گرد گھومتا ہے۔اگر قطری شہزادہ اپنے خط کی تصدیق کیلئے پیش نہ ہو تو ججز کہہ چکے ہیں کہ اس خط کو وہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے، لیکن فرض کیجیے! جی ہاں!فرض کیجیے کہ قطری شہزادہ خود پیش ہوکر اپنے خط کی حلفیہ تصدیق کردیتا ہے، فرض کیجیے کہ اِس طرح نواز شریف، حسن نواز، حسین نواز اورمریم نواز پر لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہوجاتے ہیں اور جے آئی ٹی اپنی رپورٹ میں شریف خاندان کو بے گناہ قرار دے دیتی ہے! تو؟یقینا یہ ایک بہت بڑا ’’تو‘‘ ہے۔ یہ ’’تو‘‘ ایک سال سے ’’ہوّا‘‘ بنے پانامہ کیس کے غبارے سے ایک پل میں ساری ہوا نکال دے گا ۔