آئی ایس آئی نے چار ماہ میں 27 ہزار کے قریب فون کالز ٹیپ کیں : سپریم کورٹ میں حکومتی رپورٹ
اسلام آباد (بی بی سی اردو+ نوائے وقت رپورٹ+ نیشن رپورٹ) حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو بتایاگیا ہے کہ آئی ایس آئی نے گذشتہ چار ماہ کے دوران 26940 کالیں ٹیپ کی ہیں تاہم عدالت کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ میں نہ تو ان کالز کو ٹیپ کرنے کی وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ جن کی ٹیلیفون کالیں ٹیپ کی گئیں وہ کون لوگ ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے خفیہ اداروں کی طرف سے ٹیلیفون ٹیپ کرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ یہ ازخود نوٹس19 برس پہلے 1996ءمیں پاکستان کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اس وقت لیا تھا جب انکے ٹیلی فون کے ساتھ لگائے گئے جاسوسی کے آلات برآمد ہوئے تھے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے خفیہ اداروں کی طرف سے ٹیلیفون کالیں ریکارڈ کرنے کے بارے میں سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کی درخواست پر عدالت نے اس رپورٹ کے دیگر حصوں کو منظرعام پر نہ لانے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ حکومت سے پوچھ کر بتائیں کہ خفیہ اداروں کو کس قانون کے تحت لوگوں کے ٹیلیفون ٹیپ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اگر خفیہ ادارے کسی قانون کے تحت مختلف افراد کے ٹیلیفون ٹیپ کرتے ہیں تو پھر تو ٹھیک ہے ورنہ عدالت اس معاملے کو کسی شخص کی نجی زندگی میں مداخلت کے طور پر دیکھے گی۔ واضح رہے کہ اس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو حکم دیا تھا کہ وہ خفیہ اداروں کے متعلقہ شعبوں سے تفصیلات لے کر بتائیں کہ ا±نہوں نے کچھ عرصے کے دوران کتنی ٹیلیفون کالیں ٹیپ کی ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ یہ حساس معاملہ ہے اس لیے اس ازخود نوٹس کی سماعت چیمبر میں کی جائے جس پر بینچ کے سربراہ نے کہا تھا کہ وہ آئندہ سماعت پر اس معاملے میں خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسر کو اپنے ساتھ لے کر آئیں اور وہ ا±ن وجوہات کے بارے میں بتائیں کہ اس مقدمے کی سماعت چیمبر میں کیوں کی جائے۔ اس کے بعد ہی اس از خود نوٹس کی سماعت بند کمرے یا کھلی عدالت میں کرنے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ عدالت نے سینئر قانون دان عبدالحفیظ پیرزادہ سے کہا کہ وہ اس معاملے میں عدالت کی معاونت کریں جس پر ا±نہوں نے اپنی رضامندی ظاہر کی۔ گذشتہ سماعت کے دوران سویلین خفیہ ادارے انٹیلی جنس بیورو نے عدالت کو بتایا تھا کہ ا±نہوں نے ملک بھر سے 5594 ٹیلیفون کالیں ٹیپ کی ہیں۔ جسٹس ثاقب نثارنے کہا ہے کہ اگر ایجنسیز والے بغیر اجازت کے فون ٹیپ کررہے ہیں تو یہ درست نہیں۔ ایجنسیز کو ریاست نے فون ٹیپ کرنے کی اتھارٹی دی ہے تو عدالت کو اعتراض نہیں۔ یہ عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، اسے دبایا نہیں جاسکتا۔ عدالت میں پیش رپورٹ کے مطابق فروری میں 6523، مارچ میں 6819، اپریل میں 6742 اور مئی میں 6856 فون ریکارڈ کئے گئے۔ نیشن رپورٹ کے مطابق رپورٹ کے جائزے کے بعد عدالت نے اسے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو واپس کردیا۔ عدالت نے عدالتی معاون کو آگاہ کیا یہ مقدمہ 1996ءسے زیر التوا ہے اور انہیں کیس کی بیک گراﺅنڈ سے بھی آگاہ کیا۔