موجودہ انتخابی اور سیاسی نظام تعلیم یافتہ، دیانتدار اور اہل افراد کو قبول نہیں کرتا۔ چند سو روایتی خاندان زمین اور دولت کے بل بوتے پر سیاسی نظام پر قابض ہیں جو منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ سیاست بھی جائیداد کی طرح وراثت بن چکی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کو چیلنج کرنیوالی واحد شخصیت ڈاکٹر طاہر القادری کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بلاشبہ ایک انقلابی شخصیت ہیں جو طویل عرصے سے انقلاب کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس خواب کی تعبیر کیلئے سنجیدہ جدوجہد بھی کررہے ہیں۔ عوامی انقلاب کے امکانات اس دن روشن ہوگئے جس دن پاکستان عوامی تحریک اور مسلم لیگ(ق) کی قیادت نے لندن میں مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے اور انقلاب کی اذان دے دی۔ لندن میں ہی محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔ اس میثاق کی روح مک مکا کرکے باری باری حکومت کرنا اور مارشل لاء کا راستہ روکنا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور چوہدری شجاعت نے جس میثاق پر دستخط کیے ہیں اسے دس نکاتی انقلابی ایجنڈے کے ساتھ جوڑا گیا ہے البتہ اس میثاق کا خفیہ ایجنڈا یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی سیاست پر دو خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرکے سیاست کو وسیع البنیاد بنایا جائے۔
پاکستان کے عوام چونکہ پوری طرح باشعور نہیں ہیں اس لیے سیاستدان اور مذہبی رہنما انہیں مختلف نعروں سے بے وقوف بنالیتے ہیں۔ عوام انقلابی ایجنڈے کی بجائے شخصیات پر اندھا اعتماد کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں شخصیات ایجنڈے کو بھول کر ’’کاردیگر‘‘ کرنے لگتی ہیں۔ صحافی بھی ایجنڈے کو اہمیت دینے کی بجائے شخصیت پرستی کرنے لگتے ہیں۔ عوام اگر باشعور ہوتے تو حکمرانوں کی کیا مجال تھی کہ وہ مقامی حکومتوں کے انتخابات نہ کراتے۔ عوام اپنے حق کیلئے ڈنڈے لیکر سڑکوں پر آجاتے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان جو اتحاد ہوا ہے اس کی بنیاد دس نکاتی ایجنڈے پر رکھی گئی ہے۔ پاکستان کے نامور قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا چوہدری شجاعت حسین کے ہمرہ لندن گئے تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ق) کی قیادت آئینی انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں سنجیدہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلابی ایجنڈا ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ (1) ہر بے گھر کو گھر دیا جائے گا اور متوسط خاندانوں کو گھر کی تعمیر کیلئے 25 سال کی اقساط پر بلاسود قرض دیا جائیگا۔ (2) ہر بے روزگار شخص کو مناسب روزگار فراہم کیا جائیگا یا روزگار الائونس دیا جائیگا۔ (3) قلیل آمدنی والوں کو ضروری اشیائے خوردونوش (آٹا، گھی، چینی، چاول، دودھ، دال اور سادہ کپڑا) آدھی قیمت پر فراہم کی جائیں گی۔ (4) لوئر مڈل کلاس کیلئے بجلی، پانی اور گیس کے بلوں پر ٹیکس ختم کردئیے جائینگے اور مذکورہ یوٹیلٹیز نصف قیمت پر فراہم ہونگی۔ (5) سرکاری انشورنس کا نظام بنایا جائیگا جس کے تحت غریبوں کا علاج مکمل طور پر فری ہوگا۔ (6) یکساں نظام کے تحت میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی ہوگی۔ (7) غریب کسانوں اور ہاریوں کو 10/5 ایکڑ زرعی زمین برائے کاشت مفت فراہم کی جائیگی۔ (8)مستحق گھرانوں میں خواتین کو گھریلو صنعتوں کے ذریعے روزگار فراہم کیا جائیگا تاکہ انہیں معاشی استحکام مل سکے اور خواتین کے خلاف امتیازی رسوم اور ظالمانہ قوانین کا خاتمہ کیا جائیگا۔ (9)سرکاری و غیر سرکاری چھوٹے بڑے ملازمین کے درمیان تنخواہوں کے فرق کو ممکنہ حد تک کم کیا جائیگا۔ (10) فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خاتمے کی انقلابی پالیسی بنائی جائی گی۔ 10 ہزار امن تربیتی مرکز قائم کیے جائینگے۔
پاکستان کے عوام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ موجودہ ریاستی نظام اس قدر ناکارہ اور فرسودہ ہوچکا ہے کہ یہ پاکستان اور عوام کے مفادات کا تحفظ اور دفاع نہیں کرسکتا۔ اس نظام میں خاندان مضبوط ہورہے ہیں اور پاکستان کمزور ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت بھی اشرافیہ کی لونڈی بن چکی ہے حالانکہ جمہوریت ووٹ کے تقدس کا نام ہے۔ جمہوریت میں انتخابی نظام آزادانہ، منصفانہ اور دیانتدارانہ ہوتا ہے۔ تمام طبقات کو مساوی نمائندگی کا حق میسر آتا ہے۔ عوام میں پائی جانیوالی عدم مساوات کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ہر شہری کو عزت سے جینے اور ترقی کرنے کے مساوی مواقع ملتے ہیں۔ موجودہ سیاسی و انتخابی نظام کو تبدیل کرنے اور اسے حقیقی معنوں میں جمہوری بنانے کیلئے انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام انقلابی تبدیلی پر مائل ہوچکے ہیں اور انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔ موجودہ حکمران اگر ایک سال کی کارکردگی سے مطمئن ہوتے تو وہ لندن اعلامیے سے بوکھلاہٹ کا شکار نہ ہوتے۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں ’’خدا کیلئے پاکستان کو چلنے دیں‘‘۔ حکومت مخالف تحریک سے خوفزدہ ہوکر قومی بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر اب اس فیصلے کا کریڈٹ بھی ڈاکٹر طاہرالقادری اور چوہدری شجاعت حسین کو ہی جائیگا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں انہوں نے پاکستان اور دنیا بھر کے ملکوں میں منہاج القرآن کی تنظیمیں قائم کی ہیں۔ انقلابی تحریک میں اگر قومی لٹیروں کو شامل کیا گیا تو یہ تحریک اپنی موت آپ مرجائیگی۔
پاکستان کے عوام کو توقع تھی کہ میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوں گے تو ان کا انداز حکومت مختلف ہوگا۔ افسوس میاں صاحب عوام کی توقعات پر پورے نہیں اُترسکے۔ عوام ایک سال گزرنے کے بعد بھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے گزرر ہے ہیں۔ مہنگائی روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ غربت کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹھوس اقدام نہیں اُٹھایا گیا۔ امن و امان کی صورتحال اس قدر مخدوش ہے کہ ہائی کورٹ کے سامنے خاتون دن دیہاڑے سنگسار کردی جاتی ہے اور موٹروے پر حکومتی جماعت کا ایم پی اے اغوا ہوجاتا ہے۔ منتخب اراکین اسمبلی حال مست ہیں۔ وزیراعظم احتجاج کے باوجود سینٹ کے اجلاس میں نہیں جاتے۔ ایک سال کے بعد بھی وزیرخارجہ کا منصب اور درجنوں کلیدی آسامیاں خالی ہیں۔ ذاتی تشہیر کیلئے اربوں روپے کے اشتہارات شائع کیے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت ایک سال میں ایک ریاستی ادارہ بھی مستحکم نہیں بناسکی۔ ہر حکمران اقتدار میں آکر دعویٰ کرتا ہے کہ عوام نے اس کو مینڈیٹ دیا ہے لہذا وہ جو چاہے کرے حالانکہ عوام کا مینڈیٹ بنیادی حقوق اور گڈ گورنینس سے مشروط ہوتا ہے۔ جو حکمران اقتدار کے نشے میں مینڈیٹ کی شرائط بھول جاتا ہے اسکی حکومت عدم استحکام کا شکار رہتی ہے۔تجربہ کار وزیراعظم کی کارکردگی عوام کی توقعات کیمطابق ہوتی تو لندن پلان کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری جولائی کے بجائے اب جون میں ہی وطن واپس آرہے ہیں۔ انکی قیادت میں انقلابی تحریک کا مرکزی سلوگن ’’جعلی مینڈیٹ‘‘ ہوگا۔ تحریک انصاف کو انقلابی تحریک کا حصہ بننا پڑیگا کیونکہ اسکے کارکن تبدیلی کے علمبردار ہیں۔ عمران خان اگر جمہوری انقلابی تحریک کا حصہ نہ بنے تو وہ سیاست کے مرکزی دھارے سے کٹ کررہ جائینگے۔ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین انقلاب کے نعرے لگاتے رہے ہیں اگر انقلاب کی ٹرین چل پڑی تو ایم کیو ایم کو بھی اس ٹرین میں سوار ہونا پڑیگا۔ پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات کیمطابق تحریک کے کارکن جولائی اگست میں ایک کروڑ گھروں پر انقلاب کی دستک دینگے۔
جب بھی کسی حکومت کیخلاف تحریک شروع ہوتی ہے حکمران ’’جمہوریت خطرے میں ہے‘‘ کا الارم بجانا شروع کردیتے ہیں حالانکہ تحریک جمہوری نظام نہیں بلکہ حکومتی نظام کیخلاف ہوتی ہے۔ جمہوری نظام اور حکومتی نظام میں فرق ڈلیوری کا ہوتا ہے۔ اگر حکومت عوام کو سروسز ڈلیور نہ کرسکے تو جمہور اس حکومتی نظام کیخلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے۔ بنیادی اور انقلابی فیصلوں کا وقت آن پہنچا ہے۔ سیاست کو زمینداری اور تجارت سے الگ کرنا پڑے گا جو جمہوری ماڈل بار بار ناکام ہوچکا اس کو تبدیل کرنا ہوگا اور یہ صرف عوامی انقلاب سے ہی ممکن ہے۔مفکر پاکستان علامہ اقبال نے درست کہا تھا:۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024