پنجاب پولیس نے مختلف شہروں میں سکیورٹی کیمرے لگانے کے بجائے فنڈز واپس کر دئیے
لاہور (معین اظہر سے) پنجاب پولیس نے اپنی مراعات کے لئے اربوں روپے خرچ کئے مگر عوام کو دہشت گردوں، انتہا پسندوں سے بچانے اور کالعدم تنظیموں کے افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے دئیے گئے فنڈز پولیس ایک سال میں استعمال نہیں کر سکی فنڈز محکمہ خزانہ کو واپس کر دئیے گئے ہیں یہ فنڈز پنجاب کے پانچ بڑے شہروں جن میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، راولپنڈی اور ملتان میں گنجان علاقوں، اہم سڑکوں اور ایسے مقامات جہاں پر گزرگاہیں ہیں پر پولیس کی طرف سے کیمرے لگائے جانے تھے تاکہ عوام کو محفوظ رکھا جا سکے اور دہشت گردوں، شدت پسندوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے لیکن پولیس ایک سال میں سروے مکمل نہیں کر سکی کہ کن مقامات پر کیمرے لگائے جانے چاہیں۔ جس پر 6 کروڑ 90 لاکھ روپے کے فنڈز واپس کر دئیے گئے۔ تفصیلات کے مطابق سابق آئی جی پنجاب نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو گذشتہ سال جولائی کے پہلے ہفتے میں ایک سمری بھجوائی جس میں کہا گیا کہ عوام کو دہشت گردی سے بچانے، بڑے دہشت گردوں کی نقل حرکت پر نظر رکھنے، پانچ بڑے شہروں میں اہم مقامات جہاں عوام کا رش ہوتا ہے ان کی جان کے تحفظ کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے لگا کر ان جگہوں کی مانیٹرنگ کی جائے۔ جس پر انہوں نے لاہور شہر کے لئے 800 کیمرے، گوجرانوالہ میں 175 کیمرے، فیصل آباد میں 600 کیمرے، راولپنڈی میں 300 کیمرے ، ملتان میں 450 کیمرے لگانے کی تجویز دی تھی۔ فی کیمرہ تقریباً 3 لاکھ روپے کا ہے اس لئے 6 کروڑ 90 لاکھ روپے 2350 کیمروں کے لئے جاری کئے جائیں اس کے ساتھ ساتھ ان کیمروں کی مانیٹرنگ کے لئے 18 گاڑیاں فراہم کی جائیں جس میں فی گاڑی کی مالیت 22 لاکھ روپے بنتی ہے اس کے لئے 10 کروڑ 90 لاکھ روپے جاری کئے جائیں۔ وزیر اعلیٰ نے محکمہ خزانہ کی مخالفت کے باوجود پولیس کو 6 کروڑ 90 لاکھ روپے فوری طور پر جاری کرنے کا حکم دیا لیکن پنجاب پولیس نے تقریباً 10 ماہ بعد فنڈز واپس بھجوائے ہیں۔ پولیس ذرائع نے کہا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران کیمروں سے زیادہ 22 لاکھ کی 18 گاڑیوں کے خواہش مند تھے اس کے پیسے چونکہ جاری نہیں ہوئے تھے اس لئے عوام کو بچانے کے منصوبہ پر محنت ہی نہیں کی گئی۔