26کروڑ مالیت کا ٹریک چوری، ملوث ریلوے افسروں کیخلاف تحقیقات
لاہور (سٹاف رپورٹر) جنرل منیجرآپریشن ریلوے جنید قریشی نے کہا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے پوری دنیا ٹیکنالوجی کے ساتھ لے کر آگے چل رہی ہے، 1960ءمیں چلنے والے الیکٹرک ڈیزل اور سٹیم انجنوں کو ریلوے سسٹم سے صرف اس لئے خارج کیا گیا کہ ایک تو ان میں فرنس آئل استعمال ہوتا تھا جس سے اخراجات بہت زیادہ بڑھ جاتے تھے اور اس کے باوجود یہ انجن ایک گھنٹے میں صرف 40سے 45کلومیٹر سفر کرتے تھے جبکہ اس کے بعد آنے والے جدید انجن ایک گھنٹے میں 140کلومیٹر کا سفر آسانی سے طے کر لیتے ہیں، الیکٹرک انجنوں کو بجلی نہ ہونے کے سبب ریلوے سسٹم سے نکالا گیا اور ان کی جگہ ڈیزل انجنوں کو شامل کیا گیا، ریلوے میں اربوں روپے کا ٹریک چوری نہیں ہوا تاہم 26کروڑ روپے ٹریک چوری میں ریلوے افسروں پر بھی مقدمہ درج کیا گیا اور اس کی تحقیقات جاری ہیں، ملزمان کی نشاندہی ہو سکے انہوں نے کہا کہ بہت سے ٹریک پر ٹرینیں نہیں چلائی جارہی جن میں کوئٹہ سے ایران بارڈر تفتان کا علاقہ شامل جس کی وجہ وہاں دہشت گردی اور مسافر ٹرینوں پر حملے ہیں، لوہا مارکیٹ میں فروخت ہونیوالا سکریپ ریلوے میں ہونیوالے ٹھیکے کے بعد ٹھیکیدار ریلوے سے خرید کر مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں۔