اردو اور پنجابی کے شاعر ،محقق اور دانشور برادرِعزیز ڈاکٹر ،پروفیسر امجد علی بھٹی ،جب بھی تشریف لاتے ہیں تو ، میرے ذوق کے مطابق کُچھ ۔” مسالا“۔ بھی لاتے ہیں۔دو روز قبل ڈاکٹر بھٹی ۔میرے لئے، عبدالقادر نوشیروانی کی با ترجمہ تالِیف ۔” بلوچی ضرب اُلمِثل “۔ لائے۔ ایک ضرب اُلمِثل ۔ہدیہءقارئین ہے ۔” دُو سَتِ ۔کٹّے۔پَا پَکّا ۔بعد ۔مَدَتے ۔پَا ککّا۔یعنی ایک دوست کو لاکھوں پر حاصل کرتے ہو تو اُس کو ایک۔” معمولی چیز“۔ پر ناراض نہ کرو! ۔مجھے نہیں معلوم کہ میاں نواز شریف نے یہ بلوچی ضرب اُلمِثل پڑھی یا سُنی ہے یا نہیں،لیکن انہوں نے کمال یہ کِیاکہ بلوچستان کے دوستوں( نیشنل پارٹی اور پشتونخوا مِلّی عوامی پارٹی کے قائدِین کو ) ناراض نہیں ہونے دِیا۔حالانکہ بلوچستان کی وزارتِ عُلّیہ اور گورنر شِپ کوئی ۔” معمولی چیز“۔ نہیں ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ اکثریتی پارٹی ہے اور یہ میاں نواز شریف کا استحقاق تھا کہ وہ اپنی پارٹی کا وزیرِ اعلیٰ اور گورنر لاتے ،لیکن انہوں نے یہ دونوں عُہدے ،بلوچستان کے دوستوں کی نذر کر دئیے ۔ فارسی کے نامور شاعر ،حافظ شیرازی نے کہا تھا ۔۔۔
” اگر آں تُرک ِ شِیرازی ، بدست آرَد ، دِلِ ما را
بخالِ ہِندَوش بخشم ، سمرقند و بخارا را “
یعنی اگر وہ شیرازی معشوق ، ہمارا دِل تھام لے تو ، مَیں اُس کے دِل فریب تِل پر سمر قند اور بخارا نچھاور کر دوں۔حافظ شیرازی ۔ محض ایک شاعر تھے ۔ سمر قند اور بخارا کے حاکم یا اُس پر قابض نہیں تھے، لیکن میاں نواز شریف تو نہ صِرف بلوچستان بلکہ خیبر پی کے میں بھی، اپنی مسلم لیگ کی حکومتیں بنانے کی پوزیشن میں تھے ۔ انہوں نے فی الحقیقت ۔ ” جمہوری اقدار “۔کے فروغ کے لئے ، دو صوبوں میں، اقتدار کو قُربان کر دِیا ۔ وزارتِ عُلّیہ کے لئے،مسلم لیگ ن کے مضبوط امیدوار ،جناب ثناءاللہ زہری بھی مبارکباد کے مستحق ہیں،جنہوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت کے فیصلے پر سر جھُکا دیا۔صوبہ خیبر پی کے کے بعد بلوچستان میں، میاں نواز شریف کی طرف سے دوسری بار خیر سگالی روّیے کا اظہار ہے ۔اگر میاں صاحب ،مولانا فضل الرحمٰن کی بات مان لیتے اور جمعیت عُلماءاسلام (ف) کے منتخب ارکان صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل کر کے، خیبر پی کے میں، مسلم لیگ ن کی حکومت بنا بھی لیتے تو، وہاں، وزیرِ اعلیٰ یا گورنر ،مولانا فضل الرحمٰن کی پسند کا ،لانا پڑتا ،لیکن میاں صاحب نے پاکستان تحریکِ انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دے کر ، دہشت گردی کے شکار اِس صوبے کو ، کم از کم ۔” سیاسی دہشت گردی “۔ سے تو بچالِیا۔
بلوچستان میں، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیرِاعلیٰ اور جناب محمود خان اچکزئی کی پشتونخوا مِلّی عوامی پارٹی کے کسی رُکن کو گورنر بنائے جانے کے بعد ،بھی،حکومتِ بلوچستان کو ، ہر معاملے میں وفاقی حکومت کا تعاون درکار ہو گا ۔یُوں بھی بلوچ اور اُن کے پشتون راہنماﺅں کو صدر جنرل پرویز مشرّف اور اُن کے بعد صدر زرداری کی حکومت کے تلخ تجربات ہیں۔ حیرت تو اِس بات پر ہے کہ ۔صدر آصف علی زرداری ،خود بھی ۔” بلوچ“۔ ہیں ،لیکن اُن کے دَور میں بھی بلوچستان کے ساتھ سوتیلے بھائی کا سا سلوک کِیا گیا۔ کوئٹہ سے ایک روزنامہ شائع کرنے والے،پنجاب سے تعلق رکھنے والے دوست نے، مجھے آف دی ریکارڈ بتایا کہ ۔” اگر صدر زرداری کے مُنہ بولے بھائی جناب اویس مظفر ٹپّی کا تعلق بلوچستان سے ہوتا تو شاید ،پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ،بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی اختیار کرتی!“۔2جون کو ،ایک ٹی وی انٹرویومیں، صدر زرداری سے ایک لطیفہ سرزد ہو گیا ۔فرماتے ہیں ۔ ” ہماری حکومت نے بلوچوں کے لئے بہت کچھ کِیا ،لیکن بلوچوں نے اپنے لئے خود کچھ نہیں کِیا“۔ بھولے بادشاہو !۔بلوچوں نے اپنے لئے خود کچھ کیوں نہیں کِیا؟۔ کیا انہوں نے 11مئی کے انتخابات میں، آپ کی پارٹی کا صفایا نہیں کر دیا ؟۔
انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اکثریت حاصل ہونے پر ۔جناب الطاف حسین نے پیغام بھجوایا تھا کہ۔” مَیں پنجابیوں کی نمائندہ جماعت ،مسلم لیگ ن کو مباکباد دیتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ نواز شریف ۔غیر پنجابی صوبوں کے عوام کے ساتھ بھی،انصاف اور برابر ی کا سلوک کریں گے“۔ جناب الطاف حسین تک شاید ابھی یہ خبر نہیں پہنچی کہ۔ نواز شریف نے ،دو غیر پنجابی صوبوں ۔خیبر پی کے اور بلوچستان کے ساتھ، برابری سے بھی زیادہ سلوک کر دیا ہے جو اِس سے قبل کسی بھی صوبے کے، وزیرِاعظم نے اُن سے نہیں کِیا ۔بلوچستان کی غیر مسلم لیگی قیادت نے تو کھُلے دِل سے نواز شریف کی فراخدلی بلکہ دریا دِلی کا اعتراف کرتے ہُوئے انہیں نئے دَور کے جمہوری پاکستان کا قومی لیڈر تسلیم کر لِیا ہے ،لیکن ابھی تک پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت بُخل سے کام لے رہی ہے۔ بلوچستان کی پاور پولیٹکس سے فی الحال مینگل اور بُگٹی قائدِین ، الگ تھلگ نظر آرہے ہیں۔ اُن کے ساتھ ماضی میں جو کچھ ہُوا ،وہ اُس سے خائف تو نہیں، لیکن محتاط ضرور ہیں۔ اُن کے بغیر،بلوچستان میں نئے دَور کی سیاست، سُونی سُونی سی دِکھائی دے گی۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے، قومی لیڈر نواز شریف نے دریا دِلی کا مظاہرہ کِیا ہے تو نیشنل پارٹی اور پشتونخوا مِلّی عوامی پارٹی کی قیادتوں کو بھی اپنے دِل کے دروازوں کو کھُلا رکھنا ہو گا۔
نواز شریف واضح کر چکے ہیں کہ ۔انہیں پاک فوج سے کوئی شکایت نہیں وہ ذاتی سطح پر جنرل(ر) پرویز مشرف کو بھی معاف کرچکے ہیں ،لیکن تاریخ تو انہیں معاف نہیں کر سکتی اور نہ ہی زخم خوردہ پاکستان کے عوام ۔سابق صدر کے خلاف آئین توڑنے ،ججوں کی برطرفی کیس، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بُگٹی کے قتل کے مقدموں کا فیصلہ ہوگا تو پتہ چلے گا کہ اُن کا مستقبل کِیا ہے؟۔ فی الحال تو میاں نواز شریف کو وزارت،عُظمیٰ کا حلف اٹھا کر، پاکستان کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا عمل شروع کرنا ہوگا۔الیکٹرانک میڈیا پر، بار بار سُنائے جانے والے، ایک پنجابی قومی نغمے کا ۔ مُکھڑا(مطلع)ہے۔۔۔
” ایہہ دھرتی میری ، سونا ، یارو ، مَیں ا یہدا سُنیارا
سُورج وانگوں ، ڈھلکاں مارے ، ایہدا مِٹّی گارا “
حقیقت یہ ہے کہ ،پاکستان کی زمین ، سونے جیسی اور اِس کی مِٹّی اور گارا ۔ سورج کی طرح چمک دا ر ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپنے نئے دَورمیں ،میاں نواز شریف ۔ایک ماہر سُنار کی طرح ۔اِس سونے جیسی دھرتی کی چمک دار مِٹّی اور گارے سے ،کِس طرح کے زیورات بنا کر ،اِسے سجاتے ہیں ؟ ۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024