راقم نے چند روز قبل 18مئی 2013 سے 24مئی2013کے مابین اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کچھ روز عوامی جمہوریہ چین میں گزارے۔اور یوں وہاں کے دانشوروں اور عام لوگوں سے ملنے کا موقع میسرآیا۔اسی دوران چین کے وزیراعظم نے22مئی تا23مئی پاکستان کا دورہ کیااور صدر پاکستان کے علاوہ منتخب قیادت سے مذاکرات کئے اور بہت سے اقتصادی، سماجی اور دفاعی معاہدے بھی کئے گئے۔ جس کا خیرمقدم دونوں ممالک کے عوام، میڈیا اور سول سوسائٹی نے کیا ہے۔ اور توقع ہی نہیں بلکہ یقین ظاہرکیا ہے کہ اس دوسرے کے نتیجے میں پاکستان اور چین کے عوام اور حکومتوں کے باہمی تعاون میں قابل رشک حد تک اضافہ ہوگا۔
دوسری طرف28مئی کو پاکستان کے طول وعرض میں"یوم تکبیر"منایا گیا۔ عوام وخواص نے اس حوالے سے انتہائی جوش وجذبے کا مظاہرہ کیا۔ نومنتخب اور متوقع وزیراعظم محمدنواز شریف نے لاہور میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران عزم ظاہر کیا کہ اب حکومت اورعوام معاشی میدان میں ترقی کے لئے میدان میں اتریں گے، اور وطن عزیز کو ایٹمی طاقت کے بعد ایک مو¿ثر معاشی قوت بنانے کے سفر پر گامزن ہوں گے اور اس ضمن میں ان کی چین کے وزیراعظم سے انتہائی مفید اور بامقصد بات چیت ہوبھی چکی ہے۔ اس پس منظر میں غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ یوں تو اس تلخ حقیقت کی ایک باقاعدہ تاریخ ہے کہ بھارت کے تعلقات اپنے سبھی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ زیادہ ترتلخ اور کشیدہ ہی رہے ہیں، اور اس صورتحال کی ذمے دار پوری طری دہلی سرکار ہی ہے۔
مگر11مئی اور13مئی1998ءکے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد تو ہندوستانی قیادت کے لب ولہجے میں جورعونت اور غرور آگیا تھا، وہ قابل مذمت حد تک براتھا۔28مئی1998ءکو بھارتی لوک سبھا کا اجلاس جاری تھا جب اس وقت کے وزیر اطلاعات نے بھارتی وزیرخارجہ اور نائب وزیراعظم"لعل کرشن ایڈوانی"کوایک کاغذ کے پرزے پر لکھی یہ اطلاع دی کہ پاکستان نے 6ایٹمی دھماکے کرلئے ہیں۔ اس کے بعد البتہ بھارتی قائدین کے لب ولہجے میں قدرے ٹھہراﺅ اور توازن آیا۔ وگرنہ11مئی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد تو ایڈوانی نے پررعونت لہجے میں کہا تھا کہ اب جنوبی ایشیا میں زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہیں، اور اس کا ادراک بھارت کے ہمسایوں سمیت ساری دنیا کوکرنا ہوگا، کیونکہ بھارت اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکاہے۔
اس وقت کے وزیردفاع "جارج فرنانڈیس" نے توایک مزیز قدم بڑھاتے ہوئے چین کو بھارت کا دشمن نمبرایک قراردے دیا۔ موصوف نے فرمایا کہ پاکستان کی توحقیقت ہی کیا ہے۔اور یہ زبان اس لئے استعمال کی جارہی تھی کیونکہ 11مئی سے 28 مئی 1998کے مابین کے دنوں میں جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑچکاتھا۔ ایسے میں دہلی کے حکمران طبقے کی اکڑبلاوجہ بھی قرار نہیں دی جاسکتی۔ مگر28مئی کو پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد قوت کا یہ توازن بڑی حد تک واپس اپنی اصل شکل میں آگیا۔ اور یہی وجہ تھی کہ کارگل کی کشیدگی اور 2002ءمیں پاک بھارت افواج کی آمنے سامنے صف آرائی کے باوجود دونوں ممالک کے مابین کھلی جنگ کی نوبت نہیں آئی۔جس سے یہ مفروضہ مصدقہ شکل اختیار کرگیا کہ ایٹمی ہتھیار جنگ کرنے سے زیادہ جنگ روکنے کامو¿ثر ذریعہ ہے۔اسی پس منظرمیں یہ امرقابل ذکر ہے۔
23مئی کو چین کے شہرشنگھائی میں ایک ریستوران میں گفتگو کے دوران ایک چینی دانشور) جوبین الاقوامی امورخصوصاً جنوبی ایشیائی معاملات میں PhDکی ڈگری کے حامل ہیں(کے مطابق لیبیا کے مرحوم صدر"کرنل قذافی"نے نائن الیون کے بعد امریکی اور مغربی دنیا کی خوشنودی کے حصول کی خاطر اپنا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر ختم کردیا۔ اس کے بعد کرنل قذافی کی حکومت اور زندگی کو جس بے رحمانہ طریقے سے ختم کیا گیا،اس صورتحال میں شمالی کوریا اور بعض دوسرے ملکوں کے لئے عبرت کا خاصاسامان ہے۔بہرحال28مئی کے یوم تکبیر اور نئی قیادت کو خوش آئند قراردیتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ سبھی متعلقہ حلقے اس زمینی سچائی کو مدنظررکھیں گے۔ افراد ہوںیااقوام"ہے جرم ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات"۔ امید ہے کہ پاکستانی قوم نئی قیادت کی سرگردگی میں معاشی، سماجی، دفاعی بلکہ ہرشعبے زندگی میں معجزانہ حدتک مثبت پیش رفت کا مظاہرہ کرے گی۔ اور یوں ملک وقوم داخلی اور عالمی منظر نامے پرکامیاب وکامران ہوں گے۔ انشاءاﷲ
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38