Waqt News
Friday | August 19, 2022
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
    • قومی
    • ملتان
    • بین الاقوامی
    • کاروبار
    • دلچسپ و عجیب
    • کھیل
    • جرم و سزا
    • تفریح
    • لاہور
    • اسلام آباد
    • کراچی
  • متفرق شہر
    • آزادکشمیر
    • پشاور
    • حافظ آباد
    • سیالکوٹ
    • جھنگ
    • کوئٹہ
    • شیخوپورہ
    • سرگودھا
    • ساہیوال
    • گوجرانوالہ
    • گجرات
    • میانوالی
    • ننکانہ صاحب
    • وہاڑی
  • قلم اور کالم
    • کالم
    • اداریہ
    • مضامین
    • ایڈیٹر کی ڈاک
    • نوربصیرت
    • ادارتی مضامین
    • سرے راہے
  • پرنٹ ایڈیشن
    • آج کا اخبار
    • e - اخبار
  • Magazines
    • Sunday Magazine
    • Mahnama Phool
    • Nidai Millat
    • Family Magazine
  • News Paper & TV Channel
    • Waqt TV
    • The Nation
  • NAWAIWAQT GROUP
Nawaiwaqt
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
    • قومی
    • ملتان
    • بین الاقوامی
    • کاروبار
    • دلچسپ و عجیب
    • کھیل
    • جرم و سزا
    • تفریح
    • لاہور
    • اسلام آباد
    • کراچی
  • متفرق شہر
    • آزادکشمیر
    • پشاور
    • حافظ آباد
    • سیالکوٹ
    • جھنگ
    • کوئٹہ
    • شیخوپورہ
    • سرگودھا
    • ساہیوال
    • گوجرانوالہ
    • گجرات
    • میانوالی
    • ننکانہ صاحب
    • وہاڑی
  • قلم اور کالم
    • کالم
    • اداریہ
    • مضامین
    • ایڈیٹر کی ڈاک
    • نوربصیرت
    • ادارتی مضامین
    • سرے راہے
  • پرنٹ ایڈیشن
    • آج کا اخبار
    • e - اخبار

تازہ ترین

  • ‏پی ٹی سی ایل کے ٹرانسمیشن ٹیٹ ورک میں تکنیکی خرابی، انٹرنیٹ سروس متاثر ‎
  • سفاک ماں نے شوہر سے جھگڑے کا بدلہ اپنے بچوں کو مار کر لے لیا
  • فرانس کے جزیرےکورسیکا میں موسلا دھار بارش سے سیلاب، 5 افراد ہلاک
  • ترک صدر یوکرین پہنچ گئے، صدر زیلنسکی سے ملاقات
  • میڈیکل بورڈ کا شہباز گل کو فوری طور پر ڈسچارج نہ کرنے کا فیصلہ

قرض کی پیتے تھے مے!!

Jul 04, 2022 8:42 AM, July 04, 2022
شیئر کریں:
Share
Tweet Google+ Whatsapp
 قرض کی پیتے تھے مے!!

27  جون کو وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قوم کو ’’خوشخبری‘‘ سنائی کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 2ارب ڈالر کی قسط کا اجراء ہونے کو ہے اور عالمی مالیاتی ادارہ اکٹھی دو اقساط دینے پر رضامند ہو گیا ۔وزیر خزانہ صاحب جس بات اور جس خبر کو سنا کر خوشی سے نہال ہیں ،دراصل وہ ہمدردی ،احساس اور امداد نہیں بلکہ قرضہ ہے ۔کیا دن آ گئے کہ اب ہمارے ’’ذمہ دار ‘‘ قرضے کو آئی ایم ایف پروگرام سے تعبیر کر رہے ہیں۔ کبھی وہ بھی دن تھے جب پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کے لئے قرضہ جاری کرتا تھا ۔80 کی دہائی میں پاکستان نے خطیر رقم چین کو بطور قرض ادا  کی ۔کئی مواقع پر چین کی مدد بھی کی۔آج یہ حالت ہے کہ زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر میں کمی کو سہار دینے کے لئے چین 2.30ارب ڈالر لمبی مدت کے لئے بطور قرض دے رہا ہے ۔آخر ہم کب تک قرض پروگرامز سے ملک و قوم کو مقروض کرتے رہیں گے ۔1995 کے بعد قومی سطح پر وسائل اور آمدن کے مابین جو حد فاصل پیدا ہوئی ہم نے وہ فرق ختم کرنے کی بجائے وسائل اور آمدن میں فاصلہ مسلسل بڑھایا ۔اب یہ حالت ہے کہ تنخواہوں اور پینشن  کے لئے بھی قرض کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اور یہ سوچے بغیر کہ مسلسل قرضہ قوم کو اندھیرے میں دھکیلتا رہے گا ۔ قرض لینے کی داستان کا آغاز ایوب دور سے ہوا۔ 1958 میں پاکستان نے پہلی مرتبہ آئی ایم ایف کے دربار پر دستک دی۔ جنرل ایوب خان نے 25ملین ڈالر کے کا باضابطہ طور پر تحریری معاہدہ کیا تاہم وہ رقم اُس وقت وصول نہ کی گئی لیکن پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ’’ معاشی بیعت‘‘  کا آغاز ہوا۔ 1965 اور 1968میں  باقائدہ دو پروگرامز کے ذریعے 12 ملین ڈالر حاصل کیئے گئے۔  ذولفقار علی بھٹو دور میں سال 72، 74  اور 1977  میں آئی ایم ایف سے 34 ملین ڈالر حاصل کیئے گئے۔  ضیاء دورمیں 1980-81 میں 2.187 بلین ڈالر قرضہ حاصل کیا گیا۔  بینظیر بھٹو اور نوازشریف دور  1997  سے1988 کے ادوار میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے 1.64بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا ۔  پرویز مشرف  دور میں 1.33بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔  پرویز مشرف دور کے بعد  پی پی دور میں تاریخ کے سب سے بڑے بیل آئوٹ پیکج کے ذریعے4.94 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔  اسکے بعد کے پی ایم ایل این دور  میں9 4.39بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ عمران خان کے دوراقتدار میں بھی یہ سلسلہ رک نہ سکا اور پاکستان نے 57 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ قرضے لے کر ملک چلانے کا یہ سلسلہ، رسم، رواج اوہ ریت آج بھی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ حالات اس نہج پر آن پہنچے ہیں کہ بیرونی قرضے لینے کو کامیابی وکامرانی تصور کیا جانے لگا ہے۔ ہماری حکومتیں قرضہ مل جانے کو اپنی کامیابی قرار دینے لگی ہیں۔ آج ہماری معاشی حالت یہ ہے کہ ہم کم وبیش 55ٹریلین روپے کے مقروض ہیں۔ پہاڑکی مانند یہ قرضے کس طرح ادا ہوں گے؟  ہمالیہ،  کے ٹو اور ماونٹ ایورسٹ کو تو باآسانی سر کیا جاسکتا ہے مگر قرضوں کے اس پہاڑ کو سر کرنا نا ممکن نظر آرہاہے۔  صدافسوس کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی ایسا کوہ پیما موجود نہیں کو جو ـ "کوہ قرضہ"   کو فتح کر کے اس پر اپنا فاتحانہ جھنڈا لہرا سکے۔ یہ قرضے کیوں لیئے گئے اور کہاں خرچ کیے گئے ۔  قوم اس سے مکمل طور پر لا علم اور بے خبر ہے۔ جن مقاصد کے حصول کی خاطر یہ قرضے لیے گئے وہ پورے ہوئے یا نہیں، ا سکا جواب خاموشی کے سوا ء کچھ نہیں، اسکا جواب شرمندگی کہ سواء کچھ نہیں۔  قوم کے ہر فرد کے ذھن میں اور لبوں پر یہ سوال ہونا چاہیئے کہ آخر پہاڑوں سے بڑے ان قرضوں کی رقم کہاں چلی گئی۔  ہم نے آخر ان قرضوں سے کیا حاصل کیاہے؟  یہ قرضے کیوں ناگزیرتھے؟  کب اور کس موقع پر عوام کو ان قرضوں کے حصول کی خاطر اعتماد میں لیا گیا؟   بلاشبہ اسکا جواب نفی میں ہے۔ ا س قدر بھاری بھرکم قرضہ جات سے تو ہمارے تمام ادارے ٹھیک ہو سکتے تھے۔  ہماری تعلیم کی شرح سو فیصد ہو سکتی تھی ۔  صحت کے شعبہ میں دنیا کا بہترین نظام وضع ہو سکتا تھا۔  ادارہ جاتی اصلاحات کر کے اداروں کی کارگردگی کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا تھا۔  لوکل صنعتوں کا پہیہ گھمایا جا سکتا تھا۔ امپورٹ کادروازہ بند کر کے ا یکسپورٹ کی بلند ترین منازل کو چھوا جا سکتا تھا۔  قانون کے نظام کو بہترین بنایا جا سکتا تھا ۔  مگر اس میں سے کچھ بھی نہیں ہو سکا بلکہ ہر طرف ابتری،  بے حالی بدحالی تنزلی اور تباہی ہوئی ہے۔ کیا یہ قرضے صرف روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے پر صرف ہو رہے ہیں۔  اگر ایسا ہے تو پھر کیوں نہ اخراجات کو کم سے کم تر کر دینے کی نیت اور عہد کر لیا جائے۔  قرض خواہ کو علم اور اندازہ ہے کہ قرض دار قرضہ واپس نہیں کر پائے گا اس لئے اب قرض خواہ نے اپنی پالیسی ،  اصول اور قواعدو ضوابط بنا کر ایک فہرست قرض دار کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔ قرض دار اب مجبور ہے، بے بس ہے اور لاچار ہے، شرائط اور تجویز نما احکامات پر عملدرآمد کیئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔  اس صورتحال میں اپنی مرضی ، آزادی ، اختیارات اور فیصلے ، سب کچھ سلب ہو رہا ہے۔  اگر آج قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال زندہ ہوتے اور یہ دیکھتے کہ ہم نے اُن کے اس دطن کے ساتھ کیا کچھ کر دیا ہے تو بلاشبہ وہ تڑپ کر رہ جاتے۔ اُن کا دل بُجھ جاتا ،  اُن کے خواب چکنا چور ہو جاتے۔  ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب ہوتا۔  ہمیں اپنے قائدین سے معافی کیسے ملے گی ہم یہ شرمندگی اور ندامت کیسے دھوپائیں گے ہم یہ خفت کس طرح مٹا پائیں گے۔ جب تک حکومتی سطح سے وسائل اورآمدن میں توازن کا چراغ روشن نہیں کیا جاتا ۔خود مختاری ،حقیقی آزادی ،خود انحصاری اور معاشی آزادی  کے وعدے صرف نعرے ثابت ہوں گے ۔

سفاک ماں نے شوہر سے جھگڑے کا بدلہ اپنے بچوں کو مار کر لے لیا

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو 

طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے  

شیئر کریں:
Share
Tweet Google+ Whatsapp
مشہور ٖخبریں
  • دو کشتیوں میں بیک وقت سواری کی کوشش

    Aug 18, 2022
  • ”اتنا بے سمت نہ چل“

    Aug 19, 2022
  • شہباز گل پمز ہسپتال منتقل، عمران خان کا رد عمل آ گیا

    Aug 18, 2022 | 00:17
  • ڈالر کی قیمت میں ایک مرتبہ پھر اضافہ

    Aug 18, 2022 | 12:27
E-Paper Nawaiwaqt
اہم خبریں
  • ‏پی ٹی سی ایل کے ٹرانسمیشن ٹیٹ ورک میں تکنیکی خرابی، ...

    Aug 19, 2022 | 13:52
  •  عمران کا نظریہ آج ہر گھر ٗ ووٹر تک پہنچ چکا : شاہ محمود

    Aug 19, 2022
  •  خواتین وکلاء کی بڑھتی تعداد خوش آئند‘سرپرستی کریں ...

    Aug 19, 2022
  • گیس غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے زندگی اجیرن بنادی : نوائے وقت ...

    Aug 19, 2022
  • سیکرٹری زراعت کا سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کے کاموں کا ...

    Aug 19, 2022
  • کالم
  • اداریہ
  • سرے راہے
  •  ایوان بالا ،حکومتی اور پی ٹی آئی اراکین کے ایک ...

    Aug 19, 2022
  • پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پیاری ...

    Aug 19, 2022
  • کاش پاکستان سری لنکا بن جائے 

    Aug 19, 2022
  • ”اتنا بے سمت نہ چل“

    Aug 19, 2022
  • پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، حکومت اور ...

    Aug 18, 2022
  • 1

    سیاسی لڑائی میں ریاستی اداروں کو ملوث نہ کیا جائے

  • 2

    جنرل قمر جاوید باجوہ کیلئے  چھ دوست ممالک کے اعزازات

  • 3

    سپر ٹیکس: عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالیں

  • 4

    پٹرولیم نرخوں پر نوازشریف اور آصف زرداری کے تحفظات حکومتی فیصلے قبول کریںیا ...

  • 5

    پولیو ٹیم پر حملوں کا تسلسل

  • 1

    جمعۃ المبارک ‘ 20  محرم الحرام،   1444ھ، 19 اگست 2022 ء

  • 2

    جمعرات ‘ 19  محرم الحرام،   1444ھ، 18اگست 2022 ء

  • 3

    بدھ ‘ 18  محرم الحرام،   1444ھ، 17اگست 2022 ء

  • ادارتی مضامین
  • مضامین
  • ایڈیٹر کی ڈاک
  • آزاد کشمیر میں پندرھویں ترمیم

    Aug 19, 2022
  • بیوروکریسی میں گروپنگ

    Aug 19, 2022
  • معاشی بحران اور ہماری ترجیحات 

    Aug 19, 2022
  • جمہوریت بطور فرسٹ آرڈر

    Aug 19, 2022
  • عقل برائے نقل

    Aug 19, 2022
  • سیدنا امام حسین ؓ کی شان

    Aug 19, 2022
  • آستاں ہے یہ کس شاہِ ذیشان کا

    Aug 19, 2022
  • موت کی ہچکی!

    Aug 19, 2022
  • کتاب سے مصافحہ کیجئے

    Aug 19, 2022
  • لمپی سکن کا پھیلائو، کسان کا معاشی قتل 

    Aug 19, 2022
  • 1

    ہم نے جو سمجھا؟

  • 2

    چھوڑ دو

  • 3

    سرِ تسلیم ِ خم ہے

  • 4

       بلڈ کینسر  سے جنگ لڑ رہا ہوں، صدر اور وزیر اعظم سے مدد کی اپیل

  • 5

    کشمیر بنے گا پاکستان   

  • نور بصیرت
  • قائد اعظم نے فرمایا
  • فرمودہ اقبال
  • 1

    عبادت اور تقویٰ 

  • 2

    وسعتِ عبادت

  • 3

    عبادت، اعترافِ عجز  (۴)

  • 1

    اتحاد ایمان نظم و ضبط

  • 2

    فرمان قائد

  • 3

    فرمان قائد

  • 4

    مسلم لیگ

  • 5

    فرمان قائد

  • 1

    بانگ درا

  • 2

    خطبہ صدارت

  • 3

    فرمودہ اقبال

  • 4

    بانگِ درا

  • 5

    فرمودہ اقبال

  • حالیہ تبصرے
  • زیادہ پڑھی گئی
  • نوائے وقت گروپ
  • رابطہ
  • اشتہارات
Powered By
Copyright © 2022 | Nawaiwaqt Group