قرض کی پیتے تھے مے!!

27 جون کو وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قوم کو ’’خوشخبری‘‘ سنائی کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 2ارب ڈالر کی قسط کا اجراء ہونے کو ہے اور عالمی مالیاتی ادارہ اکٹھی دو اقساط دینے پر رضامند ہو گیا ۔وزیر خزانہ صاحب جس بات اور جس خبر کو سنا کر خوشی سے نہال ہیں ،دراصل وہ ہمدردی ،احساس اور امداد نہیں بلکہ قرضہ ہے ۔کیا دن آ گئے کہ اب ہمارے ’’ذمہ دار ‘‘ قرضے کو آئی ایم ایف پروگرام سے تعبیر کر رہے ہیں۔ کبھی وہ بھی دن تھے جب پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کے لئے قرضہ جاری کرتا تھا ۔80 کی دہائی میں پاکستان نے خطیر رقم چین کو بطور قرض ادا کی ۔کئی مواقع پر چین کی مدد بھی کی۔آج یہ حالت ہے کہ زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر میں کمی کو سہار دینے کے لئے چین 2.30ارب ڈالر لمبی مدت کے لئے بطور قرض دے رہا ہے ۔آخر ہم کب تک قرض پروگرامز سے ملک و قوم کو مقروض کرتے رہیں گے ۔1995 کے بعد قومی سطح پر وسائل اور آمدن کے مابین جو حد فاصل پیدا ہوئی ہم نے وہ فرق ختم کرنے کی بجائے وسائل اور آمدن میں فاصلہ مسلسل بڑھایا ۔اب یہ حالت ہے کہ تنخواہوں اور پینشن کے لئے بھی قرض کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اور یہ سوچے بغیر کہ مسلسل قرضہ قوم کو اندھیرے میں دھکیلتا رہے گا ۔ قرض لینے کی داستان کا آغاز ایوب دور سے ہوا۔ 1958 میں پاکستان نے پہلی مرتبہ آئی ایم ایف کے دربار پر دستک دی۔ جنرل ایوب خان نے 25ملین ڈالر کے کا باضابطہ طور پر تحریری معاہدہ کیا تاہم وہ رقم اُس وقت وصول نہ کی گئی لیکن پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ’’ معاشی بیعت‘‘ کا آغاز ہوا۔ 1965 اور 1968میں باقائدہ دو پروگرامز کے ذریعے 12 ملین ڈالر حاصل کیئے گئے۔ ذولفقار علی بھٹو دور میں سال 72، 74 اور 1977 میں آئی ایم ایف سے 34 ملین ڈالر حاصل کیئے گئے۔ ضیاء دورمیں 1980-81 میں 2.187 بلین ڈالر قرضہ حاصل کیا گیا۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف دور 1997 سے1988 کے ادوار میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے 1.64بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا ۔ پرویز مشرف دور میں 1.33بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ پرویز مشرف دور کے بعد پی پی دور میں تاریخ کے سب سے بڑے بیل آئوٹ پیکج کے ذریعے4.94 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ اسکے بعد کے پی ایم ایل این دور میں9 4.39بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ عمران خان کے دوراقتدار میں بھی یہ سلسلہ رک نہ سکا اور پاکستان نے 57 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ قرضے لے کر ملک چلانے کا یہ سلسلہ، رسم، رواج اوہ ریت آج بھی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ حالات اس نہج پر آن پہنچے ہیں کہ بیرونی قرضے لینے کو کامیابی وکامرانی تصور کیا جانے لگا ہے۔ ہماری حکومتیں قرضہ مل جانے کو اپنی کامیابی قرار دینے لگی ہیں۔ آج ہماری معاشی حالت یہ ہے کہ ہم کم وبیش 55ٹریلین روپے کے مقروض ہیں۔ پہاڑکی مانند یہ قرضے کس طرح ادا ہوں گے؟ ہمالیہ، کے ٹو اور ماونٹ ایورسٹ کو تو باآسانی سر کیا جاسکتا ہے مگر قرضوں کے اس پہاڑ کو سر کرنا نا ممکن نظر آرہاہے۔ صدافسوس کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی ایسا کوہ پیما موجود نہیں کو جو ـ "کوہ قرضہ" کو فتح کر کے اس پر اپنا فاتحانہ جھنڈا لہرا سکے۔ یہ قرضے کیوں لیئے گئے اور کہاں خرچ کیے گئے ۔ قوم اس سے مکمل طور پر لا علم اور بے خبر ہے۔ جن مقاصد کے حصول کی خاطر یہ قرضے لیے گئے وہ پورے ہوئے یا نہیں، ا سکا جواب خاموشی کے سوا ء کچھ نہیں، اسکا جواب شرمندگی کہ سواء کچھ نہیں۔ قوم کے ہر فرد کے ذھن میں اور لبوں پر یہ سوال ہونا چاہیئے کہ آخر پہاڑوں سے بڑے ان قرضوں کی رقم کہاں چلی گئی۔ ہم نے آخر ان قرضوں سے کیا حاصل کیاہے؟ یہ قرضے کیوں ناگزیرتھے؟ کب اور کس موقع پر عوام کو ان قرضوں کے حصول کی خاطر اعتماد میں لیا گیا؟ بلاشبہ اسکا جواب نفی میں ہے۔ ا س قدر بھاری بھرکم قرضہ جات سے تو ہمارے تمام ادارے ٹھیک ہو سکتے تھے۔ ہماری تعلیم کی شرح سو فیصد ہو سکتی تھی ۔ صحت کے شعبہ میں دنیا کا بہترین نظام وضع ہو سکتا تھا۔ ادارہ جاتی اصلاحات کر کے اداروں کی کارگردگی کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ لوکل صنعتوں کا پہیہ گھمایا جا سکتا تھا۔ امپورٹ کادروازہ بند کر کے ا یکسپورٹ کی بلند ترین منازل کو چھوا جا سکتا تھا۔ قانون کے نظام کو بہترین بنایا جا سکتا تھا ۔ مگر اس میں سے کچھ بھی نہیں ہو سکا بلکہ ہر طرف ابتری، بے حالی بدحالی تنزلی اور تباہی ہوئی ہے۔ کیا یہ قرضے صرف روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے پر صرف ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں نہ اخراجات کو کم سے کم تر کر دینے کی نیت اور عہد کر لیا جائے۔ قرض خواہ کو علم اور اندازہ ہے کہ قرض دار قرضہ واپس نہیں کر پائے گا اس لئے اب قرض خواہ نے اپنی پالیسی ، اصول اور قواعدو ضوابط بنا کر ایک فہرست قرض دار کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔ قرض دار اب مجبور ہے، بے بس ہے اور لاچار ہے، شرائط اور تجویز نما احکامات پر عملدرآمد کیئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اپنی مرضی ، آزادی ، اختیارات اور فیصلے ، سب کچھ سلب ہو رہا ہے۔ اگر آج قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال زندہ ہوتے اور یہ دیکھتے کہ ہم نے اُن کے اس دطن کے ساتھ کیا کچھ کر دیا ہے تو بلاشبہ وہ تڑپ کر رہ جاتے۔ اُن کا دل بُجھ جاتا ، اُن کے خواب چکنا چور ہو جاتے۔ ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب ہوتا۔ ہمیں اپنے قائدین سے معافی کیسے ملے گی ہم یہ شرمندگی اور ندامت کیسے دھوپائیں گے ہم یہ خفت کس طرح مٹا پائیں گے۔ جب تک حکومتی سطح سے وسائل اورآمدن میں توازن کا چراغ روشن نہیں کیا جاتا ۔خود مختاری ،حقیقی آزادی ،خود انحصاری اور معاشی آزادی کے وعدے صرف نعرے ثابت ہوں گے ۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے