جب قدرت مہربان ہوتی ہے!
الحاج شیخ محمّد یوسف قادری صاحب بہت بڑے بزنس مین ہیں، نیک عبادت گزار اور اللہ اللہ کرنے والی شخصیت ۔ انہوں نے عمر کا بڑا حصہ سعودیہ میں گزارا اسی کی بدولت انھیں حج بھی نصیب ہوئے ماشااللہ وہ انتیس 29 حج کر چکے ہیں اورسینکڑوں عمرے …حاجی صاحب کی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے بہت ساری برکتیں عطاء فرمائیں۔ انھوں نے اگر اسلام آباد سے لاہور جانا ہو تو راستے میں اس انداز سے اپنا شیڈول ترتیب دیتے ہیں کہ جب بھی نماز کا وقت ہو تو وہ نماز با جماعت تکبیر اولی کے ساتھ پڑھیں اور سالہا سال سے ان کی تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی ۔ چالیس سال سے ذیادہ عرصہ سے وہ تہجد گزار ہیں ۔ دکھ ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے اور گناہ بخشوانے کے لیے آتا ہے اور یہ دکھ انسان کے درجات بلند کرنے کے لئے بھی آتے ہیں یوں حاجی صاحب کی زندگی میں بہت ساری خوشیوں کے ساتھ ایک دکھ بھی تھا جس نے مجھے ان کے ساتھ جوڑ دیا ۔ وہ دکھ یہ تھا کہ ان کی ایک بیٹی جس کی شادی شیخ محمد آصف سے ہوئی ان کا بزنس بھی کئی شہروں میں پھیلا ہوا ہے ۔ وہ میاں محمّد نواز شریف کے پڑوسی بھی رہے ۔ ان کی زندگی میں ایک کمی اولاد کی تھی جب بھی کرم ہوتا تو جادو کی وجہ سے بچہ منزل مقصود تک نہ پہنچ پاتا۔ ان کی اولاد فوت ہو جاتی اور یہ سلسلہ کئی مرتبہ ہوا۔ ہر بار اس کرب اور اس دکھ سے گزرتے کہ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا ہوا ہے زندگی میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے وہ سنگا پور ، امریکہ، برطانیہ اور کئی ممالک کے ڈاکٹرز سے علاج کروا چکے مگرامیدیں پوری نہ ہوئیں ۔ جب بھی امید لگتی ، ٹوٹ جاتی ۔ حاجی یوسف صاحب کو کہیں سے میرا پتا چلا کہ مدرسے کا طالبعلم ہے تب میں درس نظامی درجہ رابعہ میں پڑھ رہا تھا ۔ حاجی صاحب کو پتا چلا کہ میں روحانی علاج کا بھی طالب علم ہوں اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کرم فرمایا ہوا ہے تو حاجی صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور انہوں نے اپنے اہل خانہ کو میرے پاس بھجوایا ۔ جب مستورات تشریف لائیں اور انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ پتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ذریعے انسانوں پر کرم فرماتا ہے اور اللہ نے انسان ہی انسان کا سہارا بنایا ہے ۔ میں نے استخارہ کیا اور استخارے میں جو راہنمائی ملی اس کے مطابق ان کا علاج شروع کر دیا۔ اللہ کے کرم سے وہ بہن صاحب امید ہوگئی ۔ ہم نے ان سے صدقات کروائے، قرآنی آیات کے وظائف بتائے اور روحانی طریقہ سے علاج اپلائی کیااور علاج شروع ہوگیا حتی کہ اللہ رب العالمین نے کرم فرمایا دیا اور اس کرم کی اتنی انتہا ہو گئی کہ رب کائنات نے بچے اور ماں دونوں کی حفاظت فرمائی ۔ قدرت نے بیٹا عطاء فرمایا۔ حاجی صاحب بہت زیادہ خوش تھے اور اپنے نواسے کو لے کر ان کی خوشی کا عالم یہ تھا کہ ان کے پاس بیان کرنے کے لیے الفاظ نہ تھے ۔ تو حاجی صاحب نے اذان پڑھی انہوں نے بچے کا نام میرے ذمے لگایا میں نے اس کا نام ‘‘موسی آصف’’رکھ دیا اور آج وہ بچہ الحمداللہ تیرہ سال کا ہے ۔ چار سال بعد درس نظامی سے میری فراغت ہوئی۔ جب میری دستار بندی ہونا تھی تو حاجی صاحب اپنی فیملی کے ساتھ تشریف لائے اور پاکستان، سنگا پور اور امریکہ سے تحائف پیش کیے ۔آج اگر اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں حاجی صاحب سمیت ان جیسے مخلص اور عظیم لوگوں کا ساتھ ہے۔حاجی صاحب 2015 میں راولپنڈی تشریف لائے، ایک ہی مقصد تھا کہ وہ میرے سسلہ بیعت کا حصہ بنیں ۔سات سال بعد جب مجھے سلسلہ قادریہ اور سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت ملی تو حاضہ صاحب سلسلہ قادریہ رفاعیہ کے دائرے میں شامل ہو گئے۔ وہ خاندان اب اسلامک صوفی ازم کے مشن میں ہمارا دست بازو ہے اور آج موسی آصف قرآن مقدس حفظ بھی کر چکے ہیں