ناجائز کمائی کی قربانی

عید قربان میں چند دن رہ گئے ہیں اس موقع پر سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے عالم اسلام میں ایک خاص قسم کا ماحول بن جاتا ہے کروڑوں جانور اللہ کی راہ میں قربان کیے جاتے ہیں اسلامی معیشت میں اربوں کا لین دین ہوتا ہے کئی صنعتیں اس ایونٹ سے منسلک ہیں ہر ملک میں عید قربان کا ماحول مختلف ہوتا ہے دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں یہ فریضہ انتہائی سادگی کے ساتھ سر انجام پا جاتا ہے لیکن ہمارے خطے میں نمود ونمائش کا عنصر غالب ہے برصغیر میں عیدین کو خصوصی اہمیت حاصل ہے عیدالفطر منانے کے اپنے تقاضے ہیں جو رمضان المبارک کے روزوں کے بعد نماز عید تک محدود ہیں لیکن ہمارے ہاں کئی کئی دن تک عید ملن پارٹیاں، گھروں میں دعوتیں، نئے ملبوسات کی نمائش ،سیر سپاٹے کے ایونٹ بھی عیدین میں شامل ہو چکے ہیں اور اب تو چند سالوں سے ایک نئے رواج نے بھی جنم لے لیا ہے کہ عید کا اگلا روز سسرال جانا لازمی قرار دیا جا چکا ہے اس کے علاوہ بہنوں بیٹیوں کو عید دینا بھی ایک قسم کا فرض قرار دیا جا چکا ہے عید قربان پر ماحول تھوڑا مختلف ہوتا ہے سب سے بڑا معرکہ جانور کی خریداری کا ہوتا ہے پہلے یہ ایشو خالص مردوں کا ہوتا تھا لیکن ہر شعبہ میں عورتوں کے بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے جانوروں کی خریداری میں بھی بیگم کا فیصلہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔منڈی مویشیاں میں عورت کا جانا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن نئے رحجانات میں جانوروں کی خریداری میں عورت اور بچوں کی پسند لازمی حصہ بن چکی ہے اب جانور کی خریداری بھی ایک ایونٹ بن چکی ہے جو لوگ پاکستان میں عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس معاشرے میں قربانی کا جانور بھی بیگم کی پسند سے خریدا جاتا ہو وہاں اس سے زیادہ آزادی اور کیا ہو گی ہمارے ہاں دکھاوے کا رحجان زیادہ ہے لہذا جانور کی خریداری میں اپنی مالی حیثیت کو نمایاں کرنے کا عنصر بھی نمایاں ہوتا ہے جانور کی خریداری کے بعد اس کی سوشل میڈیا پر نمائش لازمی ہو چکی ۔بنا سنوار کر اسے گلیوں میں گھمانا ،ہمہ وقت اسے گھر کے باہر باندھنا ،رشتے داروں کو اس کی قیمت سے مرعوب کرنا ہمارا کلچر بن چکا ہے۔ مجھے تو حیرت ان لوگوں پر ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے جانور بھی رشوت اور سفارش سے حاصل کرتے ہیں کئی سرکاری اہلکار افسران شوخیاں بکھیرتے دیکھے ہیں جو یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ان کے جاننے والے نے گاؤں سے اس کے لیے جانور بھیجا ہے جس کی مارکیٹ میں قیمت لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہے مگر اس نے آدھی قیمت پر 50ہزار یا 75 ہزار میں دے دیا ہے دراصل یہ بھی رشوت دینے اور لینے کا ایک طریقہ ہے اسی طرح جن تھانوں کی حدود میں مویشیوں کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں وہاں کے پولیس افسران کو آج کل سب سے زیادہ سفارشی فون آرہے ہیں کہ ہمیں اپنے اثرورسوخ سے سستا جانور لے دو وہ افسروں کو خوش کرنے کے لیے آڑھتیوں پر زیادتیاں کرتے ہیں بلکہ اب تو بات بہت آگے تک جا چکی ہے تعلقات بڑھانے اور ناجائز کام لینے کے لیے ایسے ایسے ڈھونگ رچا کر راہ ورسم بڑھائے جاتے ہیں کہ ایسی حرکتوں پر شرم آتی ہے ایک افسر کے پاس ایک بندہ آیا اور اسے کہنے لگا کہ سر آپ نے اس بار قربانی کا جانور نہیں خریدنا میں نے اس کا بندوبست کر لیا ہے میں گاوں گیا تھا اپنے لیے اور اپنے بھائی کے لیے میں نے جانور خرید لیے ہیں بس عید کی رات جانور آپ کے گھر پہنچ جائے گا اور پھر جانوروں کی تصویریں دکھاتے ہوئے کہ ان میں سے پسند کریں اسی طرح محکمہ لائیو سٹاک پر بھی آج کل سفارشیوں کا بڑا دباو ء ہے کہ ہمیں سستا جانور لے دیں بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مفت ہی مل جائے نمود ونمائش کا یہ عالم ہے کہ بعض گھرانوں میں تو اس حد تک مقابلہ بازی ہوتی ہے کہ ہم نے چار بکرے ،دو بیل، ایک اونٹ خریدا ہے آپ کتنے جانور قربان کر رہے ہیں اسی طرح عید الاضحٰی پر سب سے زیادہ اہمیت جن حضرات کو حاصل ہوتی ہے وہ قصائی ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو کمپیٹشن ہوتا ہے کہ صبح سب سے پہلے ہمارا جانور ذبح ہوا تھا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم بڑے اثرورسوخ والے لوگ ہیں قصائیوں کی بکنگ پر بھی سفارشیں چلتی ہیں اور قصائی جہاں منہ مانگا معاوضہ حاصل کرتے ہیں وہاں کئی فٹیکیںبھی اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں گوشت کی تقسیم کا بھی اپنا ہی ماحول ہوتا ہے۔ غریب رشتہ داروں کو سب سے ناقص گوشت بھجوایا جاتا ہے جبکہ بااثر افراد سرکاری افسروں سسرالیوں کو متاثر کرنے کے لیے پوری پوری ران سجا کربھجوائی جاتی ہیں دراصل قربانی کے گوشت کی تقسیم کا شرعی اصول یہ ہے کہ اس میں ایک حصہ آپ کا ہے جسے بیشک آپ فریج میں رکھ لیں ایک حصہ آپ کے رشتہ داروں کا ہے اور رشتہ داروں میں بھی غریب رشتہ داروں کا تیسرا حصہ غریبوں کا ہے لیکن ہم نے یہاں یہ بھی دیکھا ہے لوگ قربانی کا نام کرکے سارا بکرا فریج میں محفوظ کر لیتے ہیں آج کل سوشل میڈیا پر بڑا وائرل ہوا ہے کہ "جتنی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے لگتا ہے کہ اس بار سارا گوشت بانٹنا ہی پڑیگا " میرا علماء کرام سے سوال ہے کیا ناجائز کمائی سے خریدے گئے جانور یا کسی پر دباو ڈال کر کم قیمت میں حاصل کیے گئے جانور کی قربانی جائز ہے کیا کسی کو قربانی کے جانور کا تحفہ دیا جا سکتا ہے ہمارے علماء کرام روائتی مسئلے بیان کرنے کی بجائے جدید تقاضوں کی آڑ میں مذہب میں شامل کی جانے والی خرافات کو روکنے کے لیے راہنمائی کریں ۔سوسائٹی کو بھی نمود ونمائش سے روکنے کے لیے اصلاحی تحریک شروع کرنی چاہیے کیونکہ بعض شغل شغل میں کیے جانے والے کام کچھ عرصہ بعد رواج پاکر سوسائٹی کا لازمی جزو بن جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک زور زبردستی یا ناجائز کمائی کے تگڑے جانور کی قربانی کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے اس کو آپ کی نیت سے غرض ہے خدارا قربانی کا اہتمام اللہ کو راضی کرنے کے لیے کریں نہ کہ معاشرے کے دکھاوے کے لیے۔