برکس ، برکس پلس اور پاکستان !

رواں برس کے اہم واقعات میں سے ایک 23 اور 24 جون کو ہونے والی ’’ برکس کانفرنس‘‘ ہے، جس کی سربراہی چین نے کی۔ برکس (BRICS)کانفرنس میں پانچ ممالک (برازیل، روس، بھارت، جنوبی افریقہ اور چین) شامل ہیں ۔ بلاشبہ یہ ممالک اس وقت دنیا کے اہم ترین ممالک ہیں کیونکہ آبادی کے لحاظ سے یہ ممالک تمام دنیا کی آبادی کا قریب قریب بیالیس فیصد اور رقبے کے لحاظ سے پچیس فیصد پر مشتمل ہیں۔ جی۔ڈی۔پی کے لحاظ سے عالمی جی۔ڈی۔پی کے مجموعی حجم کا ایک چوتھائی ان پانچ ممالک کے پاس ہے ۔ عالمی تجارت کی بات کریں تو اس وقت تمام دنیا کی مجموعی تجارت میں پندرہ فیصد سے زیادہ حصہ ان پانچ ممالک کا ہے۔ یہ پانچوں ممالک اگرچہ مغرب اور امریکہ جتنے ترقی یافتہ نہیں ، لیکن آبادی، وسائل، اور معیشت کے لحاظ سے ان ممالک سے بہت زیادہ کم بھی نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ ممالک نہ صرف اس ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ میں ترقی پذیر ممالک کی آواز بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ دنیا میں موجود امریکی اور مغربی ممالک کے اتحادوں اور عالمی سرمایا دارانہ سامراج کے مقابلے میں ایک نیا اتحاد بنا سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام تر اہمیت کے باوجود یہ اتحاد ، اب تک وہ سیاسی اور معاشی نتائج حاصل نہیں کر سکا جس کی اس سے امید کی جا رہی تھی یا جس کی اہلیت یہ اتحاد رکھتا ہے۔ ایک وجہ تو ان ممالک میں بہت زیادہ گرمجوش تعلقات کا نہ ہونا ہے۔ جہاں ایک جانب چین اور بھارت کے تعلقات بہت زیادہ دوستانہ نہیں ہیں وہاں برازیل اور سائوتھ افریقہ کے تجارتی اور سیاسی تعلقات بھی دیگر ممبر ممالک کے ساتھ بہت زیادہ قریبی نہیں ہیں ۔دوسرے عالمی سیاسی حالات کو دیکھا جائے تو ان ممالک کی اہمیت کے باوجود اس اتحاد کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ان تمام حالات کو پہلے سے بھانپتے ہوئے چین نے 2017 ء میں ہی ’’ برکس پلس‘‘ کا تصور دے دیا تھا یعنی اس کانفرنس میں مزید ممالک کو شامل کر کے عالمی ترقی اور عالمی سکیورٹی کو فروغ دیا جائے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ان ممالک میں ممکنہ طور پر ترکی ، ایران، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، نائیجریا اور میکسیکو شامل ہیں۔ بھارت اس سلسلے میں پاکستان کا نام نہیں لیتا اور نہ صرف چاہتا ہے کہ اس ممکنہ اتحاد میں پاکستان شامل نہ ہو، بلکہ وہ اس اتحاد کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں بھی کر چکا ہے ۔ یاد رہے کہ ’’ گوا ‘‘ میں ہونے والی برکس کانفرنس میں بھارت نے کوشش کی تھی کہ پاکستان کو ریاستی دہشت گردی کی حمایت کرنے والا ملک قرار دیا جائے۔ لیکن چین اور روس نے اس مبینہ الزام کی مخالفت کر کے بھارتی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔
روس اور چین کی پاکستان سے قربت، سی پیک میں پاکستان کے کردار، اور پاکستان کی جغرفیائی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بھارت کی یہ خواہش بچگانہ اور غیر حقیقت پسندانہ ہے کیونکہ جب بھی اس اتحاد کو وسعت دی گئی ( جو کہ ناگزیر ہے) تو پاکستان قدرتی طور پر اس وسیع اتحاد کا ’’ اٹوٹ انگ‘‘ ہو گا۔ اگر پاکستان اور چین کے تعلقات کو دیکھا جائے تو ان کی بنیاد کبھی بھی بھارت دشمنی پر نہیں رہی۔ اسی لیے گزشتہ کئی دہائیوں میں پاک چین دوستی بے شمار امتحانات اور عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کے باوجود اپنی جگہ پر مستحکم رہی ہے۔ پاکستان تمام دنیا میں تیسرا اور مسلم دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے 1950 ء میں چین کو تسلیم کیا۔ اگلے ہی برس پاکستان اور چین کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقا ت قائم ہو گئے۔ پاکستان کے پڑوس میں ’’ہند چینی بھائی بھائی ‘‘ کے نعرے بھی گونجے اور 1962 ء کی چین بھارت جنگ بھی دکھائی دی۔ ان تمام بدلتے حالات میں پاکستان نے کبھی چین کے ساتھ ’’ بھارت دشمنی‘‘ کا کارڈ نہیں کھیلا ۔ بھارت کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد ’’ پاکستان دشمنی ‘‘ پر قائم رکھنے کی عادت چھوڑنی ہو گی۔
بھارت کی خواہش کہ پاکستان کو اس ممکنہ اتحا د ( برکس پلس) میں شامل نہ ہو سکے (چاہے یہ اتحاد ناکام ہو جائے) ، کے علاوہ بھی ایک دو عوامل ہیں جن کی پنا پر یہ اتحاد بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا ۔ ایک تو بھارت امریکہ کی سربراہی میں قائم ہونے والے چار رکنی اتحاد میں جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ شامل ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ اس نئے چار رکنی اتحاد کو ’’نیٹو ‘‘ کی طرز پر چلانا اور اسے چین اور روس کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ برکس اتحاد کی کامیابی کی کنجی نیٹو اور دیگر امریکی اور مغربی اتحادوں کی عالمی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں ہے۔ ویسے بھی نیٹو اور دیگر امریکی اور مغربی اتحادوں نے عملی طور پر دنیا کو جنگوں اور تباہی کے علاوہ کچھ نہیں دیا، چاہے وہ افغانستان ہو، یا اعراق اور لیبیا۔ یہاں تک کہ روس یوکرائین جنگ کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ امریکہ اور نیٹو کا تحفہ ہے کیونکہ جس قسم کے اقدامات نیٹو اور امریکہ گزشتہ چند برسوں میں یوکرائین میں کر رہے تھے، بہت سے ممالک کا خیال ہے کہ ان اقدامات نے روس کو یوکرائین پر حملہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ موجودہ حالات میں دنیا کے اہم ممالک کے سربراہان کے ساتھ روسی صدر پیوٹن کی شرکت ایک اہم روسی کامیابی اور امریکہ کی بڑی سفارتی شکست اور اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ ایک بار پھر، امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور نہیں ہے۔ خاص طور پر جب اس فورم پر اس بات کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی ہو کہ اس کے ممبر ممالک کو آپسی تجارت ڈالر کی بجائے اپنی کرنسیوں میں کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا چاہئیے۔ مختصر یہ کہ اس وقت دنیا کی زراعت، صنعت، انسانی وسائل ( اور کسی حد تک ٹیکنالوجی ) کا بڑا حصہ چین، روس، ایشیائی ممالک ، افریقہ او ر لاطینی امریکہ کے پاس ہے لیکن اس کے بر عکس عالمی معاشی طاقت امریکہ اور مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ کو اس وقت سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ یہ عالمی معاشی طاقت اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔