اسلام اور جمہوریت ۔۔۔ایس ایم ظفر کی نظر میں
پچھلے دنوںعلامہ عاصم کی ہمراہی میں جناب ایس ایم ظفر صاحب سے چند ملاقاتیں ہوئیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کی طبیعت میں شفقت کا رنگ غالب آگیا ہے ۔ میٹھے اور رسیلے تو وہ شروع سے ہی ہیں ۔وہ کئی کتب کے مصنف ہیں ۔ اب ان کی تازہ کتاب’’ مکالمہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ میں نے سوچا کہ ان سے کتاب کا ہدیہ بھی وصول کروں اور اس پر ان کے آٹو گراف بھی یادگاری طور پر محفوظ کروالوں ۔ کافی دیر تک ان کی تازہ کتاب پر بات چیت چلتی رہی۔ ان کی باتوں نے ذہن کو تروتازہ کردیا ۔
ملاقات کا وقت ختم ہونے کو تھا۔ میں نے ان سے رخصت کی اجازت چاہی ،کہنے لگے کہ اب آئے ہیں تو مزید کچھ دیر اس بزم کو رونق بخشیں۔ میں نے کہا کہ بزم جہاں میں رونق تو آپ کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے اپنے خادم شوکت صاحب کو آواز دی کہ انگریزی کی کتاب کا ایک نسخہ لیکر آئو۔ شوکت جھٹ سے ایک کتاب لے کر آگیا ۔ ظفر صاحب نے یہ کتاب میری طرف بڑھادی اور کہنے لگے کہ بتائوکہ ٹائٹل پر کیا لکھا ہے ،میں نے سوچا کہ وہ میری بصارت کا امتحان لینا چاہتے ہیں ، کیونکہ میں جاتے ہی انہیںبتاچکا تھا کہ میری نظر انتہائی کمزور پڑگئی ہے ۔ کہنے لگے کہ کالم تو آپ کے باقاعدگی سے چھپ رہے ہیں ۔ابھی پچھلے دنوں آپ نے مکالمہ پر بھی ایک شاندار کالم لکھا ہے۔ میں نے کہا شاہ صاحب یہ سب کچھ ڈکٹیشن کے فارمولے کے تحت کام چل رہا ہے ۔
بہرحال، میں نے ظفر صاحب کی نئی کتاب پر نظر ڈالی، آنکھوں پر ذرا زور ڈالا، اور کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ گویا آپ نے ڈیموکریسی پر کوئی کتاب لکھی ہے ۔ ظفر صاحب نے زور سے قہقہہ لگا یا کہ آپ کی نظر کو اسلام نظر نہیں آیا۔ پھر بتانے لگے کہ کتاب کا نام’’ اسلام اینڈڈیموکریسی ان ہسٹری ‘‘…میں نے کہا کہ جناب والا ! کتاب تو میں بالکل نہیں پڑھ سکوں گا، تو کہنے لگے کہ تو آپ کسی سے پڑھواکر سن لیں ، کیونکہ یہ آپ کے مطلب کی کتاب ہے ، اور آج کے مسائل کا نسخہ کیمیا ہے ۔
میں نے کہا کہ آپ میری نظر کی کمزوری کو نظرانداز نہ کریںاور خود ہی بتادیں کہ اس کتاب کا خلاصہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ، کتاب کا خلاصہ آپ کو وٹس ایپ کردوں گا۔ میں گھر پہنچا تو ان کا درج ذیل پیغام آیا ہوا تھا۔
’’ محترم غالب صاحب!
میری کتاب کی بنیادی تھیوری یہ ہے کہ قرآن نے نظام حکومت کے سلسلہ میں امت کو کھلی چھٹی دی ہے کہ وہ معروضی حالات کی روشنی میں فیصلہ کرے کہ کون سا نظام معاشرے کیلئے مناسب رہے گا۔
البتہ وہ نظام ایسا ہو کہ جس کیحکومت کو عوام کی اکثریت کی تائید حاصل ہو،(البتہ وہ بادشاہت یا آمریت کی بھی کوئی شکل نہیں ہوگی۔)دوسرے ،حکومتی اورریاستی امور باہمی مشورے سے طے کئے جائیں(اہل الرائے یا پارلیمنٹ)تیسرے، ہر شہری برابری کا حقدار ہوگا کیونکہ سب اللہ ہی کی تخلیق ہے ۔اور قانون کی بالا دستی ہوگی۔یہ سارے اصول اب جمہوریت نے اپنا لئے ہیں۔
لہٰذا اب جمہوریت اسلام کیلئے سب سے زیادہ موزوں نظام حکومت ثابت ہوسکتا ہے۔میرے نزدیک پہلے چار خلفاء کو راشدین اس لئے کہا جاتا تھا کیونکہ انکے نظام کی بنیاد عوام کی منظوری کے ساتھ منسلک تھی۔اگر کوئی آمر اسلام کی ریاست کو بذریعہ طاقت حاصل کر تا ہے اور باقی شریعت کو نافذکرتا ہے تو یہ نیکی تو گنی جا سکتی ہے لیکن نظام اسلامی نہیں کہلا سکتا۔حضرت امیر معاویہؓ نے اسلام کو تقویت پہنچائی لیکن ان کا نظام ایسا تھا کہ پھررفتہ رفتہ شخصی وموروثی حکومت نے غلبہ پا لیا ، اس لئے وہ را شدین میں شامل نہیں قرار دیئے جاسکتے۔
میں نے یہ پیغام پڑھا اور ہفتے کی دوپہرپھر ان کے ہاں جا دھمکا۔میں نے کہا کہ آپ کی تحریر پڑھ کر کچھ اشکالات پیش آرہے ہیں ، جن کی وضاحت چاہنے آیا ہوں ۔ ایک تو یہ کہ ،چاروں خلفائے راشدین ؓ کی ٹرم تاحیات تھی۔ کیا ہم پاکستان کے جمہوری نظام میں وزیراعظم کی ٹرم تاحیات رکھ سکتے ہیں ۔؟ ویسے تو ہمارے ہاں ، جنرل ضیاء الحق تاحیات حکمران رہے ۔ اور جنرل مشرف کے دور میں پنجاب کے ق لیگی وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ ہم دس مرتبہ بھی صدر پرویز مشرف کو باوردی صدر منتخب کروائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ چودھری پرویزالٰہی اپنے ممدوح مشرف کو صدر زرداری کے دور میں مواخذے سے نہ بچاسکے ،اور جنرل مشرف کو آنسو بہاتے ہوئے مستعفی ہونا پڑا۔
دوسرے، ہماری بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ ہمارا کوئی بھی وزیراعظم اپنی پانچ سالہ آئینی ٹرم پوری نہیں کرسکا اور یہ بھی فرمائیے کہ جمہوریت میں جو خرافات درآئی ہیں ، کیا ان کو اسلام قبول کرسکتا ہے ؟ امریکی جمہوریت میں کوئی شخص کروڑوں اربوں ڈالر کی فنڈریزنگ کے بغیر الیکشن لڑنے کے قابل نہیں ۔ پاکستانی سٹائل کی جمہوریت میں بھی الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کو کروڑوں ،اربوں روپے ہی خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ کوئی باصلاحیت مگر پیسے سے محروم شخص الیکشن لڑنے کے قابل نہیں ۔ ہماری جمہوریت میں تو لوٹا گردی اور ہارس ٹریڈنگ کی لعنت موجود ہے ۔ ظفر صاحب نے جواب دیا کہ اسلام ان علتوں کو قطعاً برداشت نہیں کرتا ، اسی لئے میں نے لکھا ہے کہ اسلام کے جمہوری نظام میں ہر شخص کے شہری حقوق برابر ہیں اور اسے ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں۔
میں ہار ماننے والا نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ آپ نے بادشاہت اور آمریت کو اسلامی جمہوریت سے خارج کردیا ۔جس پر ظفر صاحب نے کہا کہ حضرت امیرمعاویہؓ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے ایک بدعت کو رائج کیا۔ جس کا نتیجہ کربلا کی قیامت کی صورت میں نکلا۔ جہاں اسلامی جمہوریت اور شورائیت کے نظام کو شہید کردیا گیا اور ملوکیت کا رواج چل نکلا۔ میں نے پھر سوال داغا کہ کیا آپ بنوامیہ ، بنوعباس اور ہندوستان میں ایک ہزارسالہ مسلمان حکومتوں کو اسلامی تاریخ سے خارج سمجھتے ہیں؟ظفر صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ یہ مسلمانوں کی حکومتیں تو تھیں، لیکن اسلامی حکومتیں نہیں تھیں اوربھی کئی ممالک میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم رہیں،مگر ان کو اسلامی حکومت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ اسلام میں باپ کے بعد بیٹے کو حکمران بنانے کی اجازت نہیں ہے ۔ رسول پاک ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اپنا جانشین نامزد نہیں کیا، نہ کہیں قرآن میں ان کی جانشینی کا ذکر ہے ۔ اس دور میں اہل الرائے خلیفہ وقت کا نام تجویز کرتے تھے اور پھر ریاست مدینہ کے شہری بیعت کی شکل میں انہیں اپنا خلیفہ منتخب کرلیتے۔اس دور کی بیعت آج کے دور کے ووٹ کی شکل سمجھی جانی چاہیئے۔
ظفرصاحب نے فیصلہ کررکھا تھا کہ وہ میرا دل چیریں گے ، اور پھر بار بار چیریں گے ۔ پہلے کربلا کا ذکر کرکے میرا دل چیرا،پھرہلاکواورچنگیز خان کی تباہی کا ذکر کرکے میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے برسائے ۔ جب انہوں نے سقوط ِ غرناطہ کا ذکر کیا تو میں چیخ مارے بغیر نہ رہ سکا اور میری آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ۔ ہلاکو نے بغداد کے کتب خانوں کو جلایا اور دریا برد کیا ،یوں اس نے مسلمانوں کا عظیم قیمتی علمی ذخیرہ تباہ کرکے رکھ دیا۔ غرناطہ کے یورپی فاتحین نے مسلمانوں کی تمام لائبریریاں لوٹ لیں اور ان کے اپنی زبانوں میں ترجمے کروائے ۔ یوں یورپ کو اسلام کے جمہوری اور فلاحی مزاج سے آشنا ہونے کا موقع ملا ۔ آج اسلام کے احکامات پر مغربی ممالک عمل کرتے ہیں اور ہم مسلمان اسلام سے عملی طور پر روگردانی کرچکے ہیں ۔ علم سے ہمارا دور کا واسطہ بھی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قعرِ مذلت میں گرچکے ہیں ۔ آپ سمجھ لیں کہ اسلام کے اصولوں پر عمل کئے بغیرہم اسلامی حکومت بنانے کا دعویٰ نہیں کرسکتے ۔ ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جمہوری نظام مزاج کے اعتبار سے اسلام سے قریب تر ہے اور یہی میری کتاب کی بنیادی تھیم ہے ۔ یہ کہہ کر ظفر صاحب نے جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگایا اور میں نے بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگایا ۔