توانائی بحران: حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر مستقل حل تلاش کرے

پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران کا سامنا کررہا ہے اور حکومت چاہ کر بھی اس بحران پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پارہی۔ اس بحران کی وجہ سے ایک طرف صنعتیں اور کاروبار بری طرح متاثر ہورہے ہیں تو دوسری جانب گھریلو صارفین بھی مسائل کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ بحران پر قابو پانے میں حکومت کو جس ناکامی کامنہ دیکھنا پڑرہا ہے اس کی دو بڑی وجوہ بد انتظامی اور نامناسب منصوبہ بندی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں توانائی کا بحران آج پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی یہ پہلی حکومت ہے جو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے مختلف طرح کے دعوے کررہی ہے اور اس سلسلے میں کبھی بازاروں اور مارکیٹوں کو جلد بند کرنے کے احکام جاری کیے جاتے ہیں تو کبھی دفتروں کے اوقاتِ کار میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے توانائی کے بحران کی وجہ سے مختلف مسائل کا شکار ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اس سلسلے میں حزبِ اختلاف اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر کوئی ایسی جامع پالیسی بنانے کی کوشش نہیں کی جو ایک طویل مدتی منصوبے کی شکل میں ڈھل کر توانائی کے بحران پر مکمل قابو پانے میں ممد اور معاون ثابت ہو۔
اب موجودہ حکومت نے اس بحران پر قابو پانے کے لیے کئی اور تجاویز کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا شروع کردیا ہے کہ شمسی توانائی کو استعمال میں لا کر مذکورہ بحران سے نکلنے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرِ صدارت سولر انرجی ٹاسک فورس کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب سمیت ٹاسک فورس کے دیگر ارکان نے شرکت کی۔اجلاس میں ملک میں شمسی توانائی کے ذریعے حاصل ہونے والی بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ اس دوران ملک بھر میں سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی پر منتقل کرنے اور بجلی پر سبسڈی والے علاقوں میں سولر پلانٹس لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے فزیبلٹی رپورٹ بنانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اجلاس میں توانائی کی بچت اور گرین انرجی کو فروغ دینے کے لیے پالیسی بنانے اور چھوٹے صارفین کو سولرانرجی پر منتقل کرنے کے لیے سبسڈی دینے کے منصوبوں پر بھی غور کیا گیا۔ سولر پینلز کے ذریعے حاصل ہونے والی بجلی میں سے استعمال کے بعد بچ جانے والی اضافی بجلی گرڈ سٹیشنز کو فروخت بھی کی جاسکے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق، چار سے پانچ ہزار میگاواٹ کے منصوبوں پرکام جلد شروع ہوگا۔ سولر انرجی کے کاروبار پر مراعات دی جائیں گی۔ اس حوالے سے ٹاسک فورس اپنی سفارشات بنا کر وزیراعظم کو پیش کرے گی۔
پاور ڈویژن کے مطابق، اس وقت بجلی کی مجموعی پیداوار21 ہزار 223 میگاواٹ ہے جبکہ طلب 28 ہزار 700 میگاواٹ ہے۔ یوں پورے ملک میں بجلی کا شارٹ فال ساڑھے سات ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ ہے جس کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 14 گھنٹے تک ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ زیادہ لائن لاسز والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ زیادہ ہے۔ حکومت نے بجلی کے شارٹ فال کو کم کرنے کے لیے تاجر نمائندوں سے مشاورت کے بعد بازاروں اور مارکیٹوں وغیرہ کو جلد بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن عیدالاضحی کی آمد کے پیش نظر اس فیصلے پر عمل درآمد مؤخر کردیا گیا ہے اور تاجروں کو اجازت دیدی گئی ہے کہ وہ عید تک دکانیں معمول کے مطابق کھول سکتے ہیں۔ ویسے بھی حکومت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مارکیٹوں اور بازاروں کو دو تین مہینے جلدی بند کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ایک ایسی جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ملک کے وسیع تر مفاد میں اگر کچھ تلخ فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں تو کیے جانے چاہئیں۔
اس سلسلے میں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے جن دیگر ممالک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں وہ کیا ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں توانائی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع کو استعمال میں لا کر مختلف ملک نہ صرف اپنی ضروریات پوری کررہے ہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں لیکن ہمارے ہاں اب تک توانائی کے حصول کے لیے زیادہ تر توجہ ان ذرائع پر ہے جو نہ صرف ایک بڑا مالی بوجھ ہیں بلکہ ان کی وجہ سے ماحول بھی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے تیزی سے متاثر ہورہے ہیں۔ اندریں حالات، ہمارے سامنے صرف توانائی کے بحران سے نمٹنے کا چیلنج ہی نہیں ہے بلکہ ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس ایک مسئلے کو حل کرتے ہوئے کہیں ہم اپنے لیے اس سے بڑا کوئی مسئلہ نہ کھڑا کرلیں جس پر قابو پانے کے لیے پھر ہمیں کئی دہائیوں کی منصوبہ بندی اور محنت کے علاوہ بہت سے وسائل بھی خرچ کرنے پڑیں۔
توانائی کا بحران ہماری ترقی اور استحکام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ ہم جب تک اس بحران پر قابو نہیں پاتے تب تک ملک معاشی طور پر بھی مستحکم نہیں ہوسکتا۔ کارخانے اور فیکٹریاں اگر توانائی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہیں اور بازاروں اور مارکیٹوں کو بھی ہم کم وقت کے لیے کھول رہے ہیں تو ایسے میں معاشی استحکام ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود تمام سٹیک ہولڈرز اور ماہرین کو ساتھ بٹھا کر اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرے اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کرے جو ہماری قومی ضروریات اور دستیاب وسائل کے حجم سے مطابقت رکھتا ہو۔ پچھلی چار دہائیوں سے زائد عرصے سے اس مسئلے کو مسلسل ٹالتے رہنے کی وجہ سے ہم اس حال کو پہنچ چکے ہیں کہ آج معیشت کا پہیہ رکا تو نہیں لیکن بہت ہی آہستہ چل رہا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ حکومت اس مسئلے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دیتے ہوئے اس کا مستقل حل تلاش کرے۔