عذاب ٹل جائے گا
لمحہ موجود کی صدی کے بارے میں میرے بھائی ڈاکٹر عبید اللہ خاں نے کہا تھا کہ یہ صدی ’’لٹریٹ اینڈ نان لٹریٹ‘‘ کا فرق بتا دے گی یعنی پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں کے درمیان ایک واضح امتیاز ہو گاجس پر ہم نے کہا کہ یہ تو صدیوں پرانا قصہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ میں بالکل صاف نظر آنے والا فرق موجود ہوتا ہے تو کہنے لگے نہیں بھائی! یہ فرق اب کمپیوٹر بتائے گا۔ ہم نے ان کی بات کو غیر سنجیدہ لیا اور آج محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی’’نان لٹریٹ‘‘ ہیں کہ ہماری ایم اے صحافت و ابلاغیات کی ڈگری کے مقابلے میں کمپیوٹر پرعلم رکھنے والے بہت تیز اور سبک رفتار ہیں۔لیکن ہم آج بھی اس بات پر مضر ہیں کہ کمپیوٹر کے ذریعہ ملنے والی بے شمار معلومات نہ تو مکمل علم ہیں اور نہ ہی ہر انسان کے لئے اس قدر ضروری کہ دن رات اسی میں جت جائے۔ہمارے نزدیک علم وہی ہے جو انسان کی فلاح وبہبود کے لئے ہو اور وہی علم افضل ہے جو انسان کو اپنے خالق کے نزدیک کرے۔لٹریٹ لوگوں نے دیکھا کہ لٹریٹ لوگوں نے ہی ایک دوسرے کے لئے ایک ایسی وبا کو بطور بزنس فروغ دیا کہ پوری دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ اس تباہی کا انجام کیا ہو گا۔اس پر تو سوالیہ نشان ہے۔الٹا کہا جا رہا ہے کہ اب دنیا کو اس کے ساتھ چلنا ہو گا۔ بھلا یہ بتائیے کہ موت کے سائے میں چین کی زندگی، سکھ کی نیند آ سکتی ہے۔آج دنیا کا ہر فرد پریشان ہے۔ زندگی گزارنے اور زندگی کاٹنے کا فرق تو ہو کوئی جانتا ہے۔ اس نازک اور مشکل مرحلہ پر سوائے توبہ و استغفار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔توبہ استغفار کرنے کی بجائے، دس روپے والا ماسک سینکڑوں میں فروخت ہوا اور ہو رہا ہے جبکہ سینکڑوں روپے کی دوائی لاکھوں روپے میں بک رہی ہے۔دودھ میں پانی ملانے کا رواج تو مدتوں پرانا ہے لیکن گذشتہ چند سالوں سے دودھ میں زہر اور پانی میں سنکھیا کا ہونا بھی اتنا ہی عام سا ہو گیا ہے جیسے سورج نکلے اور روشنی ہو جائے رات ہو تو اندھیرا چھا جائے۔ قانون فطرت کے ساتھ عمل شیطانیت اس قدر عام ہو جائے گا کبھی سوچا نہ تھا۔
تھانوں کے ساتھ ساتھ انصاف بھی بکنے لگے گا۔ علم کے نام پر ڈگریاں فروخت ہوں گی۔ روپے کے زور پر فتووں کی بولی لگے گی۔ مسیحا زندگی دینے کی بجائے موت بانٹیں گے۔ حاکمین وقت خدمت انسانیت کی بجائے صرف اپنی تجوریاں بھریں گے۔ کبھی سوچا نہ تھا۔آج اگر کورونا کی علامت میں عذاب، شدید قحط و مفلسی، بے روزگاری، بدامنی اور حادثات کا کلچر فروغ پا رہا ہے تو یقینا اس میں ہمارے رب کی اعلانیہ ناراضگی ہے جس پر ہم کان نہیں دھر رہے بلکہ ایک دوسرے کو الزام دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش ناکم کر رہے ہیں۔غربت و مہنگائی کے ہاتھوں موت جیسی زندگی بسر کرنے والے عوام کے حقیقی نمائندگان نے اپنی مراعات کا بل خاموشی سے منظور کر لیا جس پر حکومت تو کیا اپوزیشن نے بھی اپنی روایتی تاریخی ذمہ داری کھلے دل سے دستخط ثبت کئے۔پھر عذاب آئے یہ نہ آئے۔ ایسا کرتے رہو گے تو عذاب آتے رہیں گے۔ہمارے انسان دوست قلمکار انور مقصود نے اپنے پیغام میں کہا کہ اس آزمائش کی گھڑی میں دس روپے کی چیز دس روپے میں ہی بیچ دو۔ انشاء اللہ عذاب ٹل جائے گا۔ لوح وقلم کا مالک و خالق کہتا ہے کہ بروقت انصاف کرو۔ ظالم کو سزا دو اور مظلوم کا ساتھ دو عذاب ٹل جائے گا۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور گرانی کے ذریعہ مال بنانے والو، موت کو یاد رکھو یاد رکھو کہ تمہیں جلد یا بدیر دنیا سے خالی ہاتھ تو جانا ہو گا۔جن کے لئے مال و زر اکٹھا کر رہے ہو تمہارے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی تو کیا کریں گے تمہیں یاد تک نہیں کریں گے۔اگر رب کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرو گے تو عذاب ٹل جائے گا اور رب کی مخلوق پر خرچ ہونے والا مال تمہارے نامہ اعمال میں کثرت سے درج کیا جائے گا۔ پھر یہ مال اور اولاد فتنہ نہیں بلکہ صدقہ جاریہ بن جائیں گے۔منصف و کوتوال یاد رکھو اس عظیم الشان خالق کو وقت دو جس نے وقت پیدا کیا ہے۔ اسے وقت دو گے تو تمہارا وقت بدل جائے گا۔ تمہارا عذاب ٹل جائے گا۔ اس لئے خالق کے ساتھ جڑنے پر انسان کو اپنی عارضی دنیاوی زندگی کی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ اس کا وقت خلق خدا کی خوشنودی اور خالق کی رضا کے مطابق صرف ہوتا ہے۔ ایسا وقت سرمایہ حیات اور دوسرا وقت ضیاع حیات ہے۔ ذرا سنجیدگی سے سوچو کہ مستقل اور پائیدار زندگی کے مقابلے میںعارضی اور کمزور زندگی کے لئے اپنی دنیا و آخرت کیوں تباہ کر رہے ہو۔ کیوں عذاب الٰہی کو دعوت دیتے ہو۔قصہ امروز اس حدیث مبارکؐ پر تمام کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے ابن آدم (ہمیشہ) میرا مال میرا مال کیے جاتا ہے۔(اسی ہوس و فکر میں مرا جاتا ہے) مگر بتائو تو (سہی) تمہیں اس سے زیادہ کیا ملا جو تم نے صدقہ دے دیا اور آگے بھیج دیا یا کھا کر ختم کر دیا۔ یا پہن کر بوسیدہ کر دیا۔ مال و زر کو زندگی سمجھنے والے نادان دوستو! آئو عہد کریں کہ آج کے بعد مذکورہ حدیث مبارکہؐ کے مطابق زندگی بسر کریں گے ۔میرا دعویٰ ہے کہ اللہ عزو جل عذاب ٹال دے گا۔ یہ لٹریٹ لوگوں سے نان لٹریٹ کا وعدہ ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے جود و کرم سے ضرور پورا فرمایا ہے۔