’’سیاسی وعدے،انتخابی وعدے‘‘
اسلامی معاشرہ میں حکمران کا وصف جو صاحب اقتدار ہے‘ صاحب عزت ہو اور اگر یہ وصف نہیں تو وہ حکمرانی کے لائق نہیں ہے اور یہ کیسے معلوم ہو کہ صاحب اقتدار صاحب عزت ہے۔ یہ اس کے قول و فعل سے معلوم ہو جاتا ہے۔ پاکستان ایک جمہوری اسلامی ملک ہے۔ آغاز سے لے کر اس وقت تک حکمرانوں میں قول و فعل کا تضاد رہا ہے۔ جھوٹ بے بنیاد الزامات معاشی سماجی قتل مذہبی منافرت میں حکمران طبقہ ہی ملوث رہا ہے نئے پاکستان کے نعرہ میں عوام نے عمران خان کی ذات کے حوالے سے بڑھ چڑھ کر ان کا ساتھ دیا‘ ان کے منشور کو پذیرائی ملی اور اقتدار میں آنے کے بعد ’’ریاست مدینہ‘‘ کے طرز پر حکمرانی کا بار بار عندیہ دیاگیا۔ قول و فعل کے حوالے سے یو ٹرن کو سیاست کا اہم جز قرار دیا جس کو ہر سطح پر ناپسند کیا گیا۔ میرٹ کی دھجیاں اڑا دی گئیں‘ پسند نہ پسند کو معیار قرار دیا گیا پولیس اصلاحات کے حوالہ سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ کانسٹیبل سے لیکر انسپکٹر جنرل پولیس تک ملازمین افسران نے میرٹ پر کام کرنے کی کوشش کی اور ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ حکمران سیاسی جماعت کے عہدیداروں کو میرٹ کے برعکس ترجیح دی گئی‘ تقریباً دو سال کے اس عرصہ میں آغاز سے لیکر اپ تک ہر ضلع خاص طورپر پنجاب میں لوگوں کو وہ واقعات ہیں۔ جن کو یاد دہرانے کا کوئی فائدہ نہ ہے ہاں ایک اہم افسوسناک عمل کا ذکر ضروری ہے۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی جناب مزاری کو ڈیوٹی پر متعین پولیس سکیورٹی نے وزیراعلیٰ اور سیکرٹریٹ کے احکامات کے ساتھ روکا اور اندر نہ جانے دیا۔ اس پر عوامی نمائندگان کا استحقاق کے تحت کارروائی ہوئی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس حاضر ہوئے لیکن معزز کمیٹی کے ارکان کی تسلی نہ ہوئی۔ اس معاملہ کو سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے اپنی سیاسی مہارت سے کھیل کھیلا۔ وزیراعلیٰ بزدار اور حکومت کی مدد کی ڈپٹی سپیکر کو راضی کیا اور تحریک انصاف کی پولیس اصلاحات اور میرٹ پر تفتیش کام کرنے کی پالیسی کو دفن کر دیا کمیٹی نے تادم تحریر موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس اور تبدیل شدہ چیف سیکرٹری کو بلوایا معاملہ پر بات ہوئی اور یہ طے پایا کہ آئندہ ضلع اور ڈویژن کے پولیس افسران یعنی ڈی پی او‘ سی پی او اور ریجنل پولیس افسران ایم پی اے صاحبان کا فون اٹینڈ کریں گے۔ ان کی بات سنیں گے اور کسی قسم کی عدم تعمیل برداشت نہ ہو گی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ایم پی اے‘ ایم این اے صاحبان کے فون پر متذکرہ عہدے داران پولیس آفیسر ایس ایچ او لیول تک ان عوامی نمائندگان کی تعمیل حکم کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق تفتیشی افسران کیلئے ٹریننگ سنٹر کا الگ انتظام کیا جا رہا ہے یہ پولیس ٹریننگ کالج سہ سالہ یا دیگر ٹریننگ سنٹرز کے علاوہ ہو گا اب دوسری خبر یہ بھی ہے کہ تھانہ میں تعینات اسسٹنٹ سب انسپکٹر سے لے کر ایس ایچ او کے عہدے داران کا تعیناتی سے قبل ذہنی ٹیسٹ کیا جائے تاکہ تھانہ میں
آنے والے شہریوں سے بدسلوکی مشتبہ اشخاص پر بالوجہ تشدد ‘ ہتک آمیز سلوک کا خاتمہ کیا جا سکے۔ کسی معاشرہ میں اس قسم کی اصلاحات کو اچھی اور پسندیدہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہر حکومت کے دور میں بڑی بڑی اصلاحات ہوتی ہیں نہایت قابل محنتی دیانتدار پولیس افسران اور انسپکٹر جنرلز پولیس نے آرڈر جاری کئے ہیں ان پر عمل کرایا ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ احکامات ناپید ہو گئے لیکن موجودہ حکومت میں جس طرح انسپکٹر جنرل پولیس کو تبدیل کیا گیا اس کی سابقہ حکومتی ادوار میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آئیے صوبہ جنوبی پنجاب کے آغاز کا تجزیہ کر لیں بہاولپور میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات کیا جائے گا کیونکہ وہاں کے ایم این اے اور ایم پی ایز کے زمینی زرعی معاملات بہت گھمبیر ہیں اور پارلیمنٹیرین اپنی پسند اور خواہشات کے مطابق اپنا اپنا حل چاہتے ہیں ان کو پٹواری ‘ تحصیلدار ‘ اسسٹنٹ کمشنر مختلف مدات میں پوسٹ کرانے ہوں گے ان کے لئے یہ آسانی ہو جائے گی اسی طرح ملتان اور ملحقہ اضلاع کے پارلیمنٹیرین کو ایڈیشنل آئی جی کی تعیناتی سے اپنے اپنے حلقہ کے تھانہ میں محرر‘ تفتیشی آفیسر اور ایس ایچ او تعینات کرانے میں آسانی ہو گی تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا کارآمد نسخہ تلاش کر لیا ہے اس انتظام پر یقینی طورپر کروڑوں روپے کا حکومت پنجاب پر اضافی بوجھ بڑھے گا میرے خیال میں اس تجزیہ سے عوام کو پریشانی ہو گی یہ درست ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس کی پارلیمنٹیرین کے دباؤ اور گروہ بندی سے کافی حد تک جان چھوٹ جائے گی آئیے سب ملکر دعا کرتے ہیں کہ یہ فارمولا اور ان دو بڑے عہدوں کی تعیناتیاں اور اس پر عمل درآمد جنوبی صوبہ پنجاب بننے کا سنگ میل ثابت ہوں۔