ملتان کی تاریخی اہمیت اور صوبہ جنوبی پنجاب
ملتان کا شمار دنیا کے چند قدیم شہروں میں ہوتا ہے۔ آرین اقوام نے جب وادء سندھ میں قدم رکھا تو ملتان کو آباد پایا۔ ہندوستان میں رگ وید انسان کے علم میں سب سے قدیم ترین کتاب پائی جاتی ہے۔ یہ جنوب مغربی پنجاب یعنی ملتان کے علاقہ کے دریاو?ں کے کنارے بیٹھ کر لکھی گئی۔ میسکس مُلر کے بیان کے مطابق رگ وید کے کئی اشلوک تین ہزار سال قبلِ مسیح کے ہیں۔ بال گنگا دھرتلک اپنی کتاب Arctic Home of Vedas ویدوں کا برفانی گھر) کے دیباچہ میں رگ وید کیکئی اشلوکوں کا زمانہ 6ہزار سے 8ہزار قبلِ مسیح بیان کرتا ہے۔ ملتان کی تاریخی اہمیت اور خوشحالی کا سبب اِس علاقہ میں 7دریاؤں یعنی سندھ،جہلم،چناب، راوی، بیاس،ستلج کے ساتھ ساتھ ساتواں دریا سر سوتی تھا۔ جو کہ گھگھر کے نام سے انبالہ کے قریب بہتا ہوا بہاولپور کے نزدیک ریگستان میں گُم ہو جاتا ہے۔ یہ علاقہ سپتا سندھوکہلاتا تھا جو بعد میں آریاو?ں کے وقت سپتا ہندو بن گیا۔ اِس علاقہ کے نام بگڑتے رہے اور ہندو استھان سے بعد میں ہندوستان بنا۔ علاقہ ملتان میں جب آریا اقوام نے دراوڑ قوم کو نکال دیا تو یہاں اُن اقوام کے نشانات اور روایات بھی مٹا دیں۔ سورج دیوتا کی پرستش کی وجہ سیاِس علاقہ کا نام کشپ پورہ پڑگیا۔جو بعد میں کشپ دیوتا کے بیٹے پرہلاد کے نام پر پرہلادپورہ بنا۔ مزید اُس کے پوتے سنبہ کے نام پر سنبہ پورہ کہلایااور سنسکرت کی پرانی کتابوں میں ملتان کے ناموں میں ہنس پورہ اور بھاگ پورہ بھی آیا ہے۔ جو کہ بعد میں مُول استھان پورہ کہلایا۔ با لآخر مولتان سے ملتان بن گیا۔ یہ علاقہ ہزاروں سال سے خوشحال اور خود مختار تھا۔ اِسکی خوشحالی کیوجہ زراعت کے ساتھ ساتھ علاقہ میں مذہبی مرکز کا ہونا بھی تھی۔ یہاں سورج کی پرستش کی جاتی تھی۔ سورج دیوتا کے ساتھ ساتھ بعد میں سب سے نمایاں آدیتہ دیوتا کے بت کی ہے جسکی وجہ سے ملتان نے بڑی شہرت پائی۔ابن الاثیر کے مطابق ملتان بیت الذہب(سونے کا گھر) کہلایا۔ یہ بت سینکڑوں برس تک قائم رہا۔ اِسکی شہرت لوگوں کی طرف سے طلائی تحائف تھے جو سال میں ایک مرتبہ ہدیہ کے طور پر دور دراز کے لوگ لاتے تھے،حج کرتے۔ سرداڑھی کے بال منڈواتے۔بلاذری اور ابنِ حوقل اس کی تصدیق کرتے ہیں۔اصطخری نے اِس بت کو انسانی شکل میں خود دیکھا۔ مختصر یہ کہ اِسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد ملتان ہمیشہ ایک آزادخودمختار مملکت کی حیثیت سے ایک وسیع علاقہ کو اپنی سلطنت کا حصہ بنائے ہوئے تھا۔ 325قبلِ مسیح سکندر اعظم کے حملے کے وقت ملتان ایک آزاد خود مختار مملکت تھی۔یہ علاقہ یونانی جرنیل سلوکس کے حصہ میں آیا۔ پھِر اُن کی عسکری کمزوری کی وجہ سے چندر گپت موریہ نے قبضہ کر لیا۔ سلوکس نے صلح کرتے ہوئے چندر گپت مُوریہ سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی اور یہ شادی ملتان میں ہوئی۔ اِس طرح ملتان مُوریہ سلطنت کا جلد حصہ بن گیا۔ اِ س نے اپنی اندرونی آزادی قائم رکھی۔ چندرگپت کے پوتے اشوک کے عہد میں ملتان نے پھر ترقی کی اور علم وادب کا مرکز بن کر اُبھرا۔ اپنی اندرونی آزادی اور خوشحالی پھر سے قائم کر لی۔ لوگوں کی مہمان نوازی سے شہرت پائی۔ سندھ اور ملتان کے برہمن راجہ چچ کے دَور حکومت میں ملتان براہِ راست راجہ چچ کے ماتحت تھا اور یہاں کی رعایا اپنے اندرونی معاملات طے کرنے میں خود مختار تھی۔670ء میں راجہ چچ کی وفات پر اس کا بیٹا راجہ داہر حکمران بنا۔ گوڑسنگھ جو کہ راجہ داہر کا چچازاد بھائی تھا کو ملتان کا حاکم مقرر کیا گیا۔ محمد بن قاسم کے حملہ713-14ء میں یہ کشمیر بھاگ گیا۔خلیفہ ولید کے عہد میں عکرمہ بن ریحان شامی گورنر ملتان بنایا گیا۔16سال بعد ملتان کو سندھ سے علیحدہ کر دیا گیا۔ اِس طرح سندھ اور ملتان میں جُدا جُدا معاشرتیں پروان چڑھنے لگیں۔ آہستہ آہستہ ملتان اپنی صوبائی خودمختاری کو دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ عربوں کے عہد میں قرامطہ اور اسماعیلی حکمرانوں نے ایک سو سال سے زائد عرصہ تک ملتان پر حکومت کی اور ملتان بغداد کے خلفاء سے علیحدہ رہا۔ سلطان محمود غزنوی نے1004-5ء پھر1010ء میں ملتان پر مسلسل حملے کر کے اِن کا قلع قمع کیا۔ شہاب الدین محمد غوری کے عہد میں حاکم ملتان ناصر الدین قباچہ (1202ء تا1227ئ) نے ملتان کو اُسکی اپنی علمی ادبی پہچان واپس دلائی۔ملتان ایک خود مختار اور آزاد مملکت کے طور پر پھر اُبھرا۔ سلاطین دہلی کے عہد حکمرانی میں شکست و ریخت کا سلسلہ جاری رہا۔اِس دوران سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کو حاکم ملتان مقرر کیا گیا چنانچہ امیر خسرو اور حسن سنجری بھی شہزادہ محمد کے ساتھ ملتان میں قیام پذیر ہوئے۔اِن کے پانچ سال کے قیام کے دوران ملتان امن کا گہوارہ رہا اور یہ شہر علم کی روشنی بکھیرنے لگا مگر جلد ہی 1284-5ء میں ہلاکو خان کے پوتے ارغون اور تمر خان نے حملہ کر کے اِس کا امن تباہ کر دیا۔ شہزادہ مقابلہ کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ امیر خسرو قیدی بنا لیا گیا۔دو سال منگولوں کی قید میں رہا۔عہدِ سلاطین میں حضرت بہاء الدین زکریا اور اُن کے خانوادہ نے علم کی شمع روشن کی۔ غیاث الدین تغلق کے عہد حکومت میں ملتان نے بڑی ترقی کی۔
معاشی خوشحالی کی وجہ سے علمائ، معماروں، کاشی گروں اور دیگر صاحبِ علم و کسب کی سرپرستی کی گئی۔ کوٹلہ تغلق (کوٹلہ تولے خان) میں شاہی سبز مسجد اور دیگر عمارات(جو اَب نہیں ہیں) بشمول مزار حضرت رکن الدین اپنی مثال آپ ہیں۔ ملتان سے بادشاہوں نے اپنا تعلق کبھی نہیں توڑا۔ سلطان محمد شاہ تغلق۔سلطان فیروز شاہ تغلق نے ہمیشہ اہلیانِ ملتان کی اپنے قیام کے دوران داد رسی کی۔سلطان غیاث الدین تغلق کی گورنری کے دوران سلطان محمد تغلق(جونا خان)1305ء میں ملتان میں پیدا ہو ا۔دوسرا بادشاہ سلطان بہلول لودھی محلہ قاضیاں میں پیدا ہوا۔ تیسرا نامور حکمران مغل عہد میں کڑی جلال خان میں اپنی ماں کے ماموں جلال خان کے گھر احمد شاہ ابدالی (افغانستان کا حکمران) 1722ء میں پیدا ہوا۔ ملتان کی خوشحالی کو بدحالی کی صورت دینے میں منگولوں کے حملوں کا بڑا دخل ہے۔ 1398ء میں ہلاکو خان کے پوتے پیر محمد خان نے ملتان پر حملہ کر کے بڑا نقصان پہنچایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ دریا راوی قلعہ اور شہر کی فصیل کے ساتھ ساتھ بہتا تھا۔ بعد میں آہستہ آہستہ اپنا راستہ تبدیل کرتا چلا گیا۔ آج ملتان سے 35میل دور تلمبہ کے قریب اپنے نشان چھوڑے ہوئے ہے۔ بعد میں طوائف الملوکی سے تنگ آ کر اہلیانِ ملتان نے حضرت بہاء الدین زکریا کے خانوادہ کے ایک نیک سیرت نوجوان شیخ محمد یوسف قریشی کو 1443ء میں ملتان کا حاکم منتخب کر لیا۔ اِس نے 2سال میں انتہائی کامیابی سے حکومت کی۔ ملتان کا امن بحال کر دیا۔ لوگوں نے بڑا تعاون کیا۔ لوگوں نے دہلی سے ناطہ توڑ دیا۔ اوچ بھی ملتان کے ماتحت رہا۔ اس دوران رائے سہرہ لنگاہ کی سازش سے ملتان پر لنگاہ خاندان کا قبضہ ہو گیا۔80سالہ لنگاہ دور میں ملتان نے خوب ترقی کی۔ زراعت، صنعت و حرفت پر توجہ دی گئ۔ خوشحالی قدم چومنے لگی۔ قلعہ پر حضرت بہاء الدین زکریا کے مدرسہ کو زندہ جاوید بنا دیا گیا۔ ملتان ایک اہم علمی مرکز بن گیا۔ ملتان علمی ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز قرار پایا۔دریائے راوی کو تلمبہ کے قریب سلطنت دہلی اور مملکت ملتان کے درمیان سرحد قرار دیا گیا۔ ملتان و اُوچ ایک مرتبہ پھر ناصرالدین قباچہ کے عہد کی طرح ایک آزاد خود مختار مملکت کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ ملتان میں سکہ ڈھالنے کے Mintقائم کی گئی۔یہ سلسلہ احمد شاہ ابدالی کے عہد تک رہا۔لنگاہ عہد میں ملتان سرکار کی وسعت مشرق کی طرف دریائے راوی۔ مغرب کی طرف دریائے چناب۔ جنوب کی طرف دریائے ستلج اور جھنگ کی طرف چنیوٹ اور جھنگ شامل تھے۔
سلطان شہاب الدین محمد غوری کے وقت ملتان کی حدود مشرق میں دیپارلپور سے لے کر مغرب میں بھکر تک اور شمال میں منبع سندھ سے لے کر جنوب کی طرف جیسلمیر تک تھیں۔ طول 403کوس اور عرض126کوس تھا۔ آئینِ اکبری اور خلاصہ التواریخ کیمطابق مغل بادشاہ اکبرِ اعظم کے عہدمیں ٹھٹھہ کا علاقہ ملتان میں شامل کر دیا گیا۔ اِس طرح ملتان کے صوبہ کی لمبائی 640کوس بن گئی۔ مغل دور میں ملتان سرکار سب سے بڑی اور سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اِس کے 88پر گنے تھے۔ ڈوڈرمل کی جمع بندی کے مطابق ملتان کا رقبہ 33لاکھ بیگہ تحریر ہے۔ مغل وائسرائے ہمیشہ ملتان میں قیام کرتا۔جب نادر شاہ ایرانی نے1739ئمیں حملہ کر کے مغل تاجدار محمد شاہ پر کامیابی حاصل کی تو دریائے سندھ کے پار کے علاقے یعنی پشاور۔ ڈیرہ اسماعیل خان۔ ڈیرہ فتح خان اور ڈیرہ غازی خان پر اپنے براہِ راست کنٹرول کا اعلان کیا۔ اِن علاقہ جات میں محاصل کی وصولی کے لئے اپنا الگ حاکم مقرر کیا۔ مزید بہاول پور ریاست کے حکمران کو علیحدہ حکمرانی کا پروانہ بھی دیا۔ ملتان مغل سلطنت دہلی کے ماتحت رہنے دیا گیا۔ ٹھٹھہ۔ سیوستان۔ سندھ کا باقی علاقہ محاصل کی وصولی کی غرض سے الگ کر دیا گیا۔ ملتان ہزاروں سال تک اپنے صوبہ کا دارالخلافہ رہا۔(جاری ہے)