اپوزیشن کی سنجیدگی کی ضرورت
حکمراں جماعت کو عروج تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار میڈیا سے منسلک ہمارے بزرگ کالم نویسوں اور صحافیوں کا تھا جنہوں نے اپنی پوری محنت اور جانفشانی سے اس پارٹی کے لئے رائے عامہ ہموار کی اور دھرنے کے اسٹیج پر جاجاکر تحریک انصاف کی لیڈرشپ کی ایمانداری اور ملک کی خدمت کے عزم کا بارہا اعادہ کیا اور اپنی تحریروں اور رپورٹنگ سے اس پارٹی کو ملک کی مقبول جماعت بنایا اور پھر جیسے ہی ان کی کاوشوں کا ثمر ملا اور تحریک انصاف حکومت میں آئی تو سب سے پہلے ’’تبدیلی کے مزے‘‘ چکھنے والی صحافی برادری ہی تھی جس میں نئی ملازمتیں پیدا ہونے کے بجائے بے روزگاری کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور میڈیا انڈسٹری سے منسلک سینکڑوں ادارے بند ہوگئے جس سے ہزاروں سینئر صحافی اور کالم نگار‘ دانشور بے روزگار ہوگئے۔ تبدیلی کے اس ریلے کے بعد وہی کالم نگار ان پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں جو اپنی تحریروں میں اسے اہل ترین حکومت قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔
اسی طرح تحریک انصاف کو سب سے زیادہ سپورٹ پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے نے کیا اور دھرنے میں نوجوانوں کی شرکت سے یہ بات ثابت ہوتی تھی کہ تحریک انصاف ان پڑھے لکھے نوجوانوں کو سیاست میں لے آئی ہے جو کبھی ملکی سیاست سے لگاؤ نہیں رکھتے تھے اور ان نوجوانوں کا لگاؤ اسی لئے تھا کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے اپنی تقریروں میں اقتدار میں آتے ہی ایک کروڑ نوکریاں دینے‘ مساوی تعلیم سمیت دودھ و شہد کی نہریں بہادینے کے دعوے کئے تھے اور ہمارے نوجوانوں نے ان نعروں پر یقین کرلیا تھا لیکن زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں اور اب قوم تقریباً مایوسی کا شکار ہے جسے دور دور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔
دوسری پارٹیوں سے آنیوالے افراد دراصل نظریاتی طور پر اسی پارٹی کے منشور اور مزاج سے وابستہ ہوتے ہیں جو نئی پارٹی کے قیام اور جدوجہد سے نہ تو اس قدر واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں جذباتی لگاؤ ہوتا ہے کہ ہر صورت ہم نے اس پارٹی کے منشور کو مکمل کرکے پارٹی کو مزید عروج دینا ہے اور اپنے پارٹی لیڈر کی نیک نامی کا سبب بننا ہے۔ یہی ہوا ہے حکمراں جماعت کے ساتھ جس کے اکثر وزراء ناکامیوں کا اعتراف کرنے لگے ہیں اور مستقبل میں بھی بہت کم وقت رہ گیا ہے کہ اگر معاملات بہتری کی جانب نہ گئے تو مجبوراً حکومت کو ملک کے مفاد میں کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔
ایک وزیر موصوف جب وزارت پیٹرولیم میں تھے تو بدترین کارکردگی کے باعث وہاں سے ہٹایا گیا اور اب ہوابازی کے شعبے میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیکر اس پڑھے لکھے اور ہنرمند طبقے پر کاری وار کردیا ہے جس نے تحریک انصاف کو عروج تک پہنچانے میں بے لوث کام کیا۔
وزیر موصوف نے قومی اسمبلی میں پی آئی اے کے پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کا بیان تو اس نیت سے دیا تھا کہ اپوزیشن کی دونوں جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میں میرٹ سے ہٹ کر جعلی ڈگری والوں کو بھرتی کیا اور ان کی سمجھ ہی اتنی ہے کہ ہر روز ایسا بیان دیتے ہیں کہ ایک نیا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ان کی تمنا صرف یہی ہوتی ہے کہ سابق حکمرانوں کو برا بھلا کہہ کر اپنے کپتان کے سامنے سرخرو ہوجائیں۔ اس بیان نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا ہے اور اب جن ممالک کی ایئرلائنز میں پاکستانی پائلٹ‘ انجنیئرز اور دیگر عملہ کام کر رہا تھا انہیں نوکریوں سے نکالا جارہا ہے اور یورپ سمیت کئی ممالک نے سی این این پر رپورٹ چلنے کے بعد پاکستان کی قومی ایئرلائن کا آپریشن چھ ماہ کے لئے معطل کردیا ہے کیونکہ یہاں ڈیڑھ ماہ قبل ہی قومی ایئرلائن کا طیارہ آبادی پر گرا ہے اور دوسرے ممالک اس بیان کے بعد اپنے شہروں میں ایئرپورٹس کے اردگرد موجود آبادی کو بچانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔
وزراء کے پاس کہنے کو اور ہے ہی کیا؟ کوئی کارکردگی ہوتی تو پھر اس بات پر بات کرتے۔ فی الحال تو سابق حکمرانوں کو برا بھلا کہنے کے علاوہ حکمراں جماعت کے پاس کچھ بھی نہیں۔ رہا ایک کروڑ نوکریاں دینے کامنشور تو قوم اب سمجھ چکی ہے کہ دراصل یہ ایک کروڑ لوگوں کو بے روزگار کرنے کا منشور تھا جس کی لپیٹ میں صحافیوں کے بعد اب ہوابازی کی صنعت سے منسلک لوگ آچکے ہیں اور کرونا کی وباء کے بہانے ویسے بھی دنیا بھر میں بے روزگاری کا طوفان برپا ہونے جارہا ہے اور حکمراں جماعت کو بھی کرونا وائرس کی آڑ مل جائے گی کہ بے روزگاری کا سبب ان کی پالیسیاں نہیں بلکہ کرونا وائرس تھا جس کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہوا جو عالمی مسئلہ ہے۔
ن لیگ اور پی پی جب اقتدار میں آتی تھیں تو اپنی پوری توجہ ملک کے مسائل کے حل کی جانب مبذول رکھتی تھیں اور میڈیا میں آکر بلند بانگ دعوؤں پر انحصار نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی زیادہ ماضی کی حکومتوں کو کوستے تھے بلکہ اپنی کارکردگی قوم کے سامنے رکھتے تھے لیکن PTIکی حکومت نے خصوصی طور پر میڈیا کو استعمال کرنے کے لئے مشیر اور وزیر رکھے ہوئے ہیں جو ہر شام باقاعدگی سے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر غلط باتیں اور جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔
ہرگزرتے دن کے ساتھ بے روزگاری میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے۔ حقیقت میں تو حکمراں جماعت کی اب تک کی تمام تر پالیسیاں ملک کو بدترین حالات کی جانب دھکیل رہی ہیں اور 2018ء کے الیکشن سے قبل ملک کے ہر شعبے کی جو حالت تھی اس میں بہتری یا ترقی کے بجائے بدترین خرابی پیدا ہوئی ہے۔ میرے اپنے جاننے والے درجنوں ایسے جوان حالات کے باعث مرچکے ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت میں آنیوالی ’’تبدیلی‘‘ کا بوجھ برداشت نہ کرسکے اور ڈپریشن و تنگدستی کے باعث بیمار ہوکر اچانک ہی چل بسے کیونکہ اس وقت قوم کو دور دور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ اس سنگین صورتحال میں اگر تمام اپوزیشن جماعتیں ایک ہوجائیں تو جمہوری طریقے سے تبدیلی آسکتی ہے جوکہ ملک اور عوام کے لئے سودمند ثابت ہوگی اور قوم کے سامنے امید کی کرن پیدا ہوگی۔جمہوری طریقے سے تبدیلی مکمل طور پر آئینی ہوتی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن سنجیدگی سے ان ہاؤس تبدیلی کے ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کرے۔
٭…٭…٭