ہفتہ ‘ 12؍ذیقعد 1441 ھ‘ 4؍جولائی 2020ء
مسلم لیگ (ن) کا لاہور میں مہنگائی کیخلاف کیمپ
یہ کیمپ مختلف علاقوں میں لگائے گئے جہاں سارا دن چند درجن کارکن اور چند رہنما بیٹھ کر تقریریں کرتے رہے یا مکھیاں مارتے رہے۔ نجانے کیوں یہ مالدار سیاست دان جیب ڈھیلی کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اگر یہ اپنے اپنے کیمپوں کو کھابہ کیمپوں میں تبدیل کرتے جہاں دن بھر کھانا اور بوتلیں مفت فراہم کی جائیں تو وہاں ایسی رونق لگی رہتی کہ حکومت کو بھی شک پڑتا کہ واقعی لوگ مہنگائی کے خلاف آمادہ بغاوت ہیں۔
بابا فرید سے منسوب ایک شعر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ …؎
توں کیہہ جانے یار فریدا
روٹی بندہ کھا جاندی اے
یعنی فرید میں کیا بتائوں کہ (حقیقت میں) روٹی انسان کو کھا جاتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ مہنگائی جیسے اہم ایشو پر بھی کوئی جماعت ابھی تک عوام کو جگا نہ سکی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ سابق صدر مشرف نے سچ کہا تھا کہ پاکستانی لوگ پیسے والے ہیں یہاں کوئی غربت نہیں۔ ان کی یہ بات واقعی سچ لگ رہی ہے کہ مہنگائی کی شرح آسمان کو چُھو رہی ہے۔ مگر کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ بس میڈیا والے لوگوں کے مہنگائی کے خلاف گرما گرم بیان سنانے اور دکھانے میں یا روایتی بیان بازی سیاسی رہنما توپوں کے گولوں کی طرح مہنگائی کے خلاف زبانی بم پھوڑتے ہیں۔ عوامی سطح پر تو خاموشی کا عالم ہے ۔ لگتا ہے لوگوں میں بولنے کی سکت نہیں وہ اب سوچوں میں گم ہو گئے ہیں۔
٭٭٭٭
نیپال میں ٹڈی دل پکڑنے والے کسانوں کیلئے انعام کا اعلان
ظاہری بات ہے جب حکومت کسی کام میں کامیاب نہیں ہوتی تو وہ عوام کے لئے پرکشش انعامات کا اعلان کر کے وہ کام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسی قسم کے ایک اعلان کی بازگشت سنائی دی گئی تھی۔ چند ہفتے قبل ہماری حکومت نے بھی ایسا ہی اعلان کیا تھا۔ معلوم نہیں اس کا کیا بنا۔ کتنے لوگوںنے کلو کے حساب سے ٹڈیاں پکڑ کر حکومتی مراکز میں جمع کرا کے دام کھرے کئے۔ اس کا جواب کسی حکومتی رپورٹ میں ہی مل سکے گا۔ کیا پتہ ہمارے کسانوں ، کاشتکاروں نے اس مہم میں حصہ لیا یا نہیں۔ یا وہ صرف ڈھول ، ڈبہ اور ٹین بجا بجا کر ٹڈیوں کو بھگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نیپال ایک چھوٹا سا غریب ملک ہے۔ وہ ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے سپرے اور ہوائی جہاز استعمال کرنے سے رہا۔ اس نے انعامی رقم رکھ کر اپنے غریب عوام کو اس طرف راغب کیا ہے۔ یوں ٹڈی دل کے ساتھ ساتھ غربت پر بھی اثر پڑے گا اور کئی لوگوں کو روز گار ملے گا۔
اگر نیپال ذرہ بھر بھی عقل استعمال کرتے ہوئے ہماری طرح ٹڈی بریانی ، ٹڈی تکے، یا ٹڈی کڑاہی والے ڈھابے کھول دیں تو نیپال کی فوڈ انڈسٹری بھی ترقی کرسکتی ہے۔ ہمارے ہاں تو نخرے زیادہ ہیں اس لئے ٹڈی فوڈ زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکی۔ نیپال میںکیا پتہ یہ کامیاب تجربہ ثابت ہو جو ان کے لئے آدم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والی مثال بن جائے۔
٭٭٭٭
گرانٹ فلاور کا یونس خان پر برسبین ٹیسٹ میں گلے پر چھری رکھنے کا الزام
یہ واقعہ 2016ء کا ہے۔ اب سابق یورپی کوچ کا اس واقعہ کا تذکرہ حیرت کی بات ہے۔ ان کے بقول مکی آرتھر نے اس موقعہ پر پہنچ کر معاملہ رفع دفع کرایا تھا۔ اب یونس خان کا یہ رویہ اور ان کی تصویر کا یہ دوسرا رخ تو خاصہ حیران کن ہے۔ سپورٹس مین شپ کا مطلب تو برداشت تحمل اور ٹھنڈے مزاج کا حامل شخص ہوتا ہے۔ مگر اس انکشاف کے بعد یونس خان والا معاملہ…؎
اچھوں سے میں اچھی ہوں بروں سے میں بری
لوکی کہندے نے مینوں چھپن چھری
والا معاملہ لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے یونس خان نے ہنسی مذاق میں ایسی حرکت کی ہو ورنہ خان صاحب کو چھری چلانے سے کون روک پاتا۔ لیکن بات یہ بھی ہے کہ ایسی نوبت کیوں آئی اب اصل کہانی۔گرانٹ فلاور کو معلوم ہے یا پھر یونس خان کو یا پھر مکی آرتھر کو جس نے درمیان میں پڑ کر اس ڈ رامے کا ڈراپ سین کیا۔ ورنہ اگر کچھ ہو جاتا تو آج یونس خان کسی قید خانے میں پڑے ہوتے لوگ ان کو بھول چکے ہوتے اور کرکٹ کے شائقین ان کا کھیل دیکھنے سے محروم رہتے۔ مگر شکر ہے ایسا کچھ نہیں ہوا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اس پر انہیں مکی آرتھر کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
٭٭٭٭
امریکی الیکشن مہم میں صدر ٹرمپ کی جملہ بازی عروج پر
جی ہاں جملہ بازی صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہوتی۔ مہذب ممالک میں بھی یہ فن عروج پر ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کے جملے بازی کی دھوم پہلے سے مچی ہوئی ہے۔ جو کئی مرتبہ جگت بازی سے بھی بازی لے جاتی ہے۔ جس پر کافی شور شرابا بھی مچتا ہے۔ مگر رہی بات…
ہم طالب شہرت ہیں ہمیںننگ سے کیا کام
بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
یہی وجہ ہے کہ ان کے منہ پھٹ ہونے کا اعتراف اپنے اور دشمن سبھی کرتے ہیں۔ آج کل امریکہ میں انتخابی مہم عروج پر ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے مخالف صدارتی امیدوار پر اپنی روایتی جملے بازی یا جگت بازی کہہ لیں کے سبب بھاری پڑتے نظر آتے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں کہ اگر میں دوبارہ صدر بنا تو امریکہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔ اب یہ تو خدا جانتا ہے ان کے دور میں سوائے افراتفری کالے شہریوں اور امریکہ میں مقیم تارکین وطن پر مظالم میں اضافے کے سوا کون سی ترقی ہوئی ہے۔ لہٰذا ان کا یہ کہنا کہ اگر بائیڈن صدر بنا تو حالات الٹ ہو سکتے ہیں۔ سوائے جملہ بازی کے اور کچھ نہیں۔ اب دیکھنا امریکی ووٹران کی لچھے دار باتوں میں آتے ہیں یا نہیں۔
٭٭٭٭٭