کافی دیر تک ٹیلی ویژن دیکھتا رہا، سوشل میڈیا پر وقت لگایا، حکومتی پیجز اور اہم شخصیات کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کھنگالے لیکن کہیں کسی بھی استعفے کی کوئی چھوٹی سی خبر بھی نہیں تھی۔ نوجوان نسل کو تو بتایا جاتا رہا کہ کہیں حادثہ ہو تو متعلقہ وزیر سے استعفیٰ لیا جاتا ہے۔ مغرب کی جمہوریت کا مطلب نوجوان نسل کو سمجھایا جاتا رہا، انہیں جمہوریت کا وہ چہرہ دکھایا جاتا رہا جہاں احتساب ہے، ذمہ داری ہے، مہارت ہے، قابلیت ہے، ترقی ہے انصاف ہے۔ قانون کی بالادستی ہے۔ جب تک تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی مغربی جمہوریت کے قصے سنا سنا کر عوام کو ذہنی طور پر اس حد تک تیار کر دیا گیا کہ وہ سمجھنے لگے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد مہنگائی کا خاتمہ ہو ۔لیکن حکومت میں آنے کے بعد مہنگائی کا خاتمہ ہو گا، بیروزگاری ختم ہو جائے گی، وزراء عوام کے خادم ہوں گے اگر وہ خدمت نہیں کریں گے تو گھر جائیں گے لیکن جس نے یہ خواب دکھائے تھے اس نے ہی ان خوابوں کو چکنا چور کیا ہے۔ موجودہ حالات میں کم از کم تین استعفے تو میرٹ پر بنتے ہیں اور وزیراعظم کو یہ استعفے ذاتی طور پر طلب کرتے ہوئے اپنے ماضی کے موقف پر قائم رہنا چاہیے اور قوم کو بتانا چاہیے کہ مغرب کی جمہوریت میں حکومت پر عوام کے اعتماد کی اصل وجہ کیا ہے۔
ریلوے میں ہونے والے ہر حادثے کے بعد اپوزیشن کے اس عمران خان کو ڈھونڈتے ہیں جو ہر حادثے کے بعد وزیر کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتا تھا، گرجتا برستا تھا لیکن آج شیخ رشید کی وزارت میں ریلوے میں درجنوں حادثے ہو چکے ہیں لیکن شیخ رشید اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ انہیں ان حادثات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ گاڑیاں تباہ ہوتی رہیں، قیمتی جانیں ضائع ہوتی رہیں۔ تمام تر نقصانات کے باوجود شیخ رشید مکمل محفوظ ہیں بلکہ محفوظ پلس ہیں۔ وہ اپنی وزارت کے علاوہ ہر معاملے پر رائے دیتے ہیں۔ یعنی ان کی توجہ اپنے کام کے علاوہ ہر کام پر ہے۔ ہر دوسرے معاملے وزیر ریلوے کود پڑتے ہیں اگر اتنی توجہ اور لگن کے ساتھ وہ ریلوے کو چلاتے تو شاید حادثات کی وجہ سے جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے ہم اس سے بچ جاتے کیا پے درپے حادثات، قیمتی جانوں کے ضیاع اور بھاری مالی نقصان کے بعد بھی وزیر ریلوے سے استعفیٰ نہیں لیا جانا چاہیے اگر شیخ رشید کو اتنی خراب کارکردگی کے باوجود نظر انداز کیا جا سکتا ہے تو اپوزیشن والے عمران خان خواجہ سعد رفیق یا دیگر وزراء پر تنقید کیوں کرتے تھے۔ آج یہ مطالبہ قوم کا ہے کہ اس نااہل وزیر سے ملک کے اہم ترین شعبے کی جان چھڑائی جائے۔
دوسرا استعفیٰ یوٹیلیٹی اسٹورز کے چیئرمین ذوالقرنین خان کا ہونا چاہیے چینی ستر کے بجائے اٹھہتر روپے فی کلو خرید کر قوم کے خزانے کو لگ بھگ پچاس کروڑ کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ یہ کیس خالصتاً یوٹیلیٹی اسٹورز انتظامیہ کی نالائقی اور نااہلی کا ہے۔ مل مالکان چینی فی کلو ستر روپے دینے کی پیشکش کر رہے تھے لیکن ذوالقرنین خان اور ان کی ٹیم نے اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے کے بجائے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہی چینی اٹھہتر روپے تینتیس پیسے فی کلو خریدی ہے۔ اس بارے پیپرا رولز کا عذر پیش کیا جا رہا ہے ہم ذاتی حیثیت میں وزیراعظم کو پیپرا رولز پر بریفنگ دینے کے لیے تیار ہیں تاکہ انہیں سمجھ آئے کہ اصل میں یوٹیلٹی اسٹورز انتظامیہ نے کہاں غلطی کی ہے۔ یہ کک بیک ہے، کریشن ہے کم علمی ہے غلطی ہے یا جو بھی ہے جن لوگوں کی وجہ سے قومی خزانے کو پچاس کروڑ کا نقصان پہنچا ہے انہیں جرمانہ کر کے یہ پیسے واپس قومی خزانے میں جمع کروائے جائیں۔ اسی یوٹیلیٹی اسٹورز نے رمضان المبارک کے دوران بھی قومی خزانہ لوٹنے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ مسلسل ایسے واقعات کے بعد بھی اگر وزیراعظم عمران خان اپنے قریبی افراد کی کارکردگی پر توجہ نہیں دیتے ہیں تو پھر وہ اپنے ہی مقرر کیے ہوئے معیار کی مخالفت کر رہے ہیں۔
تیسرا استعفیٰ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کا ہونا چاہیے جو اپنی بہترین انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو فضاؤں سے زمین پر لے آئے ہیں۔ ایک ایسا ادارہ جو دنیا بھر میں پاکستان کے پرچم کے ساتھ نمائندگی کرتا تھا غلام سرور خان کے جوش خطابت اور جلد بازی کی نذر ہو گیا ہے۔ کراچی طیارہ حادثہ میں انتہائی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا، قوم اعلیٰ دماغوں سے محروم ہوئی اس تباہی کے بعد وزیر موصوف نے اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک ایسے موضوع پر زبان کھولی جو خالصتاً ادارے کا اندرونی معاملہ تھا اسے اندرونی طور پر ہی حل کیا جانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے طیارہ تباہ ہونے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ملک کے ایک بڑے ادارے کو آسمان سے زمین پر پھینک دیا ہے۔ اتنی بڑی تباہی کے بعد بھی وہ اپنے عہدے پر قائم ہیں۔ ایسا کیوں ہے، کیا یہ دوہرا معیار نہیں کہ مخالفین سے استعفوں کا مطالبہ کیا جائے اور اپنے ناکام و نالائق وزراء کو گلے سے لگا کر رکھا جائے۔ آج ان تینوں وزراء کے استعفے، تمام حادثات اور نقصان کی مکمل آزاد اور شفاف انکوائری ہی قوم کا مطالبہ ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے لیے بھی جمہوریت کا پیغام ہے کہ وہ مظفر گڑھ میں ہونے والی کرپشن کا نوٹس لیں اگر اس معاملے میں خاموشی اختیار کی گئی یا حقائق چھپانے کی کوشش کی گئی تو مظفر گڑھ کی لوکل گورنمنٹ میں ہونے والا یہ واقعہ پنجاب حکومت کے گلے کا طوق بن سکتا ہے۔ کرپشن کے اس واقعے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے دو مشیر شامل ہیں۔ وہ اس حوالے آڈیو ریکارڈنگ سن چکے ہیں جس میں ان کے مشیران کرپشن کے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اور ڈی سی او مظفر گڑھ اس کرپشن کیس کی انکوائری مکمل کر چکے ہیں۔ اس رپورٹ کو عام ہونا چاہیے اسے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ ذمہ داران کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے تاکہ عوام کو یہ پتہ لگ سکے کہ کرپشن ختم کرنے کے وعدے سے قائم ہونے والی حکومت اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے حقیقی معنوں میں کام کر رہی ہے۔ اس واقعے کو نظر انداز ہرگز نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ انکوائری کرنے والے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ امجد جاوید قاضی، ایس ڈی او لوکل گورنمنٹ اللہ وسایا خان اور ڈی سی او انجینئر امجد صہیب ترین کا شمار قابل اور ایماندار افسران میں ہوتا ہے انہوں نے حکومت میں موجود افراد کے خلاف دلیری سے انکوائری کرنے کے بعد رپورٹ مرتب کی ہے ایسے افسران ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں حکومت کو ایسے افسروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے انہوں نے مکمل انکوائری اس عزم کے ساتھ کی ہے کہ ملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہے۔ ہمیں ایسے افسران کو مثال بنا کر پیش کرنا چاہیے۔
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر بعض حلقے برداشت کی تلقین کر رہے ہیں اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسلام تحمل مزاجی اور مذہبی آزادی کا درس دیتا ہے۔ ان تمام تحمل مزاجوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اسلام جہاد کا سبق بھی دیتا ہے۔ اسلام جنگ کا حکم بھی دیتا ہے۔ برداشت کا سبق دینے والوں کو کشمیر میں پانچ اگست دوہزار انیس سے آج تک ہونے والا لاک ڈاؤن اور دہائیوں سے کشمیر میں جاری ظلم و بربریت نظر کیوں نہیں آتی۔ یہ لوگ نریندرا مودی کو برداشت کا سبق کیوں نہیں پڑھاتے۔ ہم تو پہلے ہی برداشت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں دشمن دہائیوں سے ہماری شہہ رگ پر قابض ہے، ہمارے ملک کا امن و امان تباہ کرنے کے درپے ہے، کلبھوشن جادیو ہم نے پکڑ رکھا ہے، ابھی نندن کے ذریعے حملہ بھی ہم نے برداشت کیا ہے، کتنا برداشت اور صبر کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر آمنہ لکھتی ہیں کہ ہم نے تحریک انصاف کو بہت امیدوں کے ساتھ ووٹ دیا تھا لیکن بہت مایوسی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی مکمل طور ناکام رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے۔ یہ بھی کوئی حکومت ہے کہ زندگی عذاب بنا دی ہے۔ نسل در نسل لوگ ملک سے وفاداری نبھا رہے ہیں لیکن ان کے حالات نہیں بدل رہے۔ ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں لوگ ملک چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں جو کچھ پیٹرول کی قیمت بڑھنے اور اس کے فوری بعد پیٹرول پمپوں پر لمبی لائنیں بتا رہی تھیں کہ کوئی حکومت نہیں ہے وحدت روڈ پر ایک پیٹرول پمپ والے نے رات گیارہ بجے ہی پیٹرول کی قیمت بڑھا کر سیل شروع کر دی تھی کیا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024