مملکت خدا داد پاکستان کا شائد سب سے گناہگار شہری ہوں۔ اگلے جہاں کے سفر کیلئے زادِ راہ پر نظر ڈالتا ہوں۔ کوئی قابل فخر اثاثہ نظر نہیں آتا آخرت کا بینک اکا¶نٹ تو بالکل ہی خالی نظر آتا ہے۔ حقوق الہہ اور حقوق العباد میں ساری زندگی جو ڈنڈیاں ماریں ان کی جوابدہی کے تناظر میں قرضہ جات کا ایک انبار لگا ہوا ہے۔ مجموعی کھاتے میں نقصان ہی نقصان نظر آ رہا ہے عجب وسوسوں میں ہوں قبر میں کیا کیا بوجھ لے کر جاو¿نگا اور رَب کو کیا منہ دکھاو¿ں گا لیکن ایسے میں دل ایک گواہی دے رہا ہے کہ وہ رحیم ہے وہ کریم ہے وہ غفار ہے وہ بے نیاز ہے فریادیں سننے والا ہے ایک بار صرف ایک بار دنیاو¿ی حاجات سے آزاد صدقِ دل سے رَبِ کریم کے ہاں توبہ کا دروازہ کھٹکٹاو¿ پھر دیکھو مَن کے اندھیرے کیسے چھٹتے ہیں نور کے چراغ کیسے جلتے ہیں مایوسیاں کیسے ختم ہوتی ہیں الہہ سے محبت کا بوٹا کیسے جڑ پکڑتا ہے اور ہر طرف ہریالی ہریالی ہی کیسے نظر آتی ہے۔ اتنی بڑی حقیقتیں جاننے کے باوجود حسب معمول اج بھی دنیاوی کاموں کیلیئے ہی گھر سے نکلا ہوں۔ غضب کی گرمی ہے ایسے لگ رہا ہے کہ سورج سوا نیزے پر ہے ایسے میں ایک بہت ہی شفیق محبت کرنے والا فقیرانہ مزاج رکھنے والے درویش صفت انسان جسے اسکے دل کی امیری کی وجہ سے یہ خاکسار اسے سیٹھ وصی الدین کے نام سے پکارتا ہے اسکا فون آیا کہ کدھر ہو۔ عرض کی نابھہ روڈ پر ایک سرکاری دفتر میں آیا ہوں۔ سیٹھ کا حکم ہوا کام سے فراغت پاو¿ تو میﺅ ہسپتال کے آوٹ ڈور میں آو¿ وقت کے قلندر سے ملنا چاہتے ہو تو آو¿ ملاقات کرواتا ہوں۔ بزرگوں کے ہاں حاضریاں لگوانے اور جوتیاں سیدھی کرنے کا شوق بچپن سے پالا ہے فورا ہاں کر دی۔ میو¿ ہسپتال کے او¿ٹ ڈور کے سامنے گاڑی پارک کی اور جیسے ہی باہر پاو¿ں رکھا ایسے لگا کسی انسانوں کی بستی میں نہیں بلکہ کسی ایسے مذبحہ خانہ میں داخل ہو چکا ہوں جہاں انسانوں کے روپ میں جانور اپنی قضاءکے انتظار میں اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں۔ کہیں اگر بنچوں پر کمزور اور ضعیف سہارے ڈھونڈ رہے ہیں تو کہیں سٹریچروں پر دو دو مریض بے حالی کی کفیت میں لیٹے بیچارگی کی تصویر بنے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ یقین جانئیے انسانی برداری کی یہ تذلیل اور بے بسی دیکھ کر دل میں آیا کہ وہ رَب کریم جو رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ جبار بھی ہے اور قہار بھی ہے اسکی عدالت سے ان حکمرانوں اور اشرافیہ جو پچھلے ستر سالوں سے ہماری قسمت اور تقدیروں سے کھیل رہی ہے اور جنھوں نے ہمارے ملکی وسائل ہم پر ہی حرام کر دے ہیں انکی اس سفاکی پر رَب ذولجلال سے انکے لیئے سزا کی فریاد کروں۔ ہاتھ ا±ٹھنے کو ہی تھے کہ دل میں خیال آیا اے گنہگار کسی کیلیئے بددعا سے پہلے اپنا دامن بھی تو دیکھ کہ تم کتنے پارسا ہو اور یہ بھی دیکھو کہ تم نے اپنی برداری کیلئے فلاح کا کونسا کام کیا ہے۔ من ہی من میں ابھی ان سوالوں کا جواب ڈھونڈ رہا تھا کہ احساس ندامت نے ناقابل بیان گہرائیوں میں گرا دیا۔ ایک عجب سی شرمندگی کا ساماں لیئے جب جائے مطلوب کے سامنے پہنچا تو دیکھا قطار میں لگے لوگوں کا ایک جمِ غفیر عجب اضطرابی کفیت میں اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ دروازے پر کھڑے سٹاف کو اپنا نام بتایا تو وہ صاحب فوراً کمرے کے اندر لے گئے۔ کمرے میں داخل ہوتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں سامنے ک±رسی پر س±رخ اور سفید رنگوں کی آمیزش میں ملبوس نور کی روشنی میں چمکتے چہرے اور غزالی آنکھوں کے ساتھ سر پر سفید عمامہ باندھے چہرے پر چاندنی رنگت میں ڈوبی ریشمی داڑھی سجائے ایک شخص اپنے مریضوں کے ساتھ محوِ گفتگو ہے۔ کمرے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی رسمی تعارف کے ساتھ ہی وہ شخص دوبارہ اپنے مریضوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو فرماتے ہیں " الف الہہ چنبے دی بوٹی من میرے م±رشد لائی ہو اندر بوٹی م±شک مچایا تے جاں لباں تے آئی ہو" اپنی کفیت بھی کچھ ایسی ہے اپنے م±رشد جناب مجید نظامی نے بھی اپنے اندر ایک ایسا بوٹا لگا دیا ہے جو کلمہ حق کہنے سے رہنے نہیں دیتا۔ اپنے سامنے درویش کو پایا تو آگ مزید بھڑک ا±ٹھی۔ درویش سے عرض کی کہنے کو لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال لیکن دیکھنے میں جو ایک مذبحہ خانے سے کسی طرح کم نہیں اس میں انسانیت کی ایسی تذلیل پر آپکا دل کڑھتانہیں۔ درویش بولا ہر چیز کو دیکھنے کا اپنا طریقہ اپنا فلسفہ ہوتا ہے کچھ لوگ جب ایک تصویر کو دیکھتے ہیں تو وہ اس میں نفاست خوبصورتی اور حسن کے پہلو کو تلاش کرتے ہیں جبکہ اسکے برعکس اسی تصویر کے دیکھنے والے دوسرے لوگ اس تصویر میں نقائص کو تلاش کرتے ہیں۔ درویش بولا اپکی بات کا جواب دینے سے پہلے چاہونگا کہ جتنی دیر میں ان تمام مریضوں کو دیکھتا ہوں اپ میرے اسسٹنٹ کے ساتھ ہسپتال کا ایک چکر لگا لیں۔ درویش کا اسسٹنٹ ہمیں ساتھ لیکر کاریڈور سے ہوتے ہوئے ایک کمرے میں لے گیا جہاں کیا دیکھتا ہوں ایک وسیع کمرے میں چار پانچ ڈیسک لگے ہوئے ہیں جہاں پر لوگ ہاتھوں میں دوائیوں کے نسخے لیے کھڑے ہیں اور ان ڈیسکوں پر موجود عملہ بڑی مستعدی کے ساتھ ان مریضوں کو دوائیاں دے رہا ہے جبکہ ان ڈیسکوں کے سامنے ایک اور باریش شخص اپنا میز سجائے بیٹھا ہوا ہے جس پر نسخوں کی شکل میں کاغذات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ تعارف پر پتہ چلتا ہے کہ موصوف بھی گورنمنٹ جاب سے ریٹائرڈ ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر ہیں جو رضاکارانہ طور پر یہاں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جنکا کام ان تمام پرچیوں کا ریکارڈ ترتیب دینا اور انکا اڈٹ کرنا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلا کہ یہ فارمیسی دراصل ایک رفاعی ڈرگ بینک ہے جسکا کام ہر اس مریض کو فری میڈیسن مہیا کرنا ہے جس کو یہاں آوٹ ڈور کا کوئی ڈاکٹر لکھ کر دیتا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلا کہ یہی نہیں ایسے دو اور بینک گورنمنٹ منشی ہسپتال اور جنرل ہسپتال میں بھی اسی مستعدی کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو کہ نہ صرف عام مریضوں بلکہ کینسر کے مریضوں کو بھی مہنگی ادوایات بغیر کسی معاوضے کے خرید کر دے رہے ہیں۔ اس ساری حقیقت کو آنکھوں سے دیکھنے کے بعد جب درویش کے پاس دوبارہ آیا تو درویش بولا مزید کچھ پوچھنا چاہئینگے۔ عرض کی کیا یہ سب ریاست کی ذمہ داری نہیں۔ درویش بولا بیشک میں بھی اپ ہی کی طرح سوچتا تھا ۔ (جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024