قیام پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام اور اردوتحریک پاکستان کے بنیادی عوامل وعناصر تھے۔ بابائے قوم نے ہدایت فرمائی تھی کہ قوم کے خانے میں مسلمان اور زبان کے خانے میں اردو لکھیں۔ قیام پاکستان کے مقاصد میں بتایاجاتا تھا کہ وہاں اسلام ہو گا، انصاف ہو گا، مساوات ہوگی اور اردو ہو گی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی مشرقی پاکستان میں قائد کامشہور قول ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو، اردو اور اردو ہوگی تاہم مغرب پرست ارباب اختیار واقتدار نے قومی زبان کو کچل کر قوم کوگونگا بناکے رکھ دیا۔ کوئی مہمان حکمران باہر سے آئے یا حکمران باہر جائے، ہمارے حاکم انگریزی بولتے ہیں اور قومی زبان بولنے سے اس قدر احتراز کرتے ہیں گویا ایسا کرنے پر غشی کا کوئی دورہ پڑ جائے گا۔ ہر ترقی یافتہ قوم کے بچے اپنی زبان میں تعلیم پاکر قومی ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں مگر ہماراذہنی ونفسیاتی طور پر مریض حاکم طبقہ اپنی قوم کی زبان کی عملاً تذلیل کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ کرظلم ڈھاتا ہے۔ کس قدر ظلم ہے کہ آج ہمارے شہروں کے پرائیویٹ سکولوں میں نرسری میں داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ کا انٹرویوبھی انگریزی میں لیا جاتا ہے۔ آخر ذہنی غلامی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ برطانوی سامراج کاطرزعمل تو سمجھ آنے والی بات ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنے دستور حیات کے بنیادی منبع قرآن وحدیث سے کاٹنے کیلئے ہمیں عربی زبان سے روشناس نہ ہونے دیا۔
قبل ازآمد انگریز، تعلیم مدرسہ سے ملتی جہاں علماء عربی وفارسی میں کتابیں پڑھاتے۔ سامراجی حکمت عملی کے تحت ہمیں عربی زبان سے نابلد اور جاہل و بے خبر بناڈالاگیا تاکہ قرآن وحدیث سے ہم فیض یاب نہ ہو سکیں۔ پھر فارسی زبان اسلامی تہذیب کا خزانہ سموئے ہوئے تھی توہمیں اس سے بھی لاتعلق بنا ڈالا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم شاہ ولی اللہ کے خانوادے، غالب، اقبال وغیرہ کے فارسی ذخیرہ علم سے بے خبر اور لاتعلق ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر ایک گہری حکمت عملی کے تحت ہماری نسلوں کواردوسے کاٹ کرپوری کردی۔ آج انگلش میڈیم اداروں میں اقبال فہمی کا سروے کریں تو سہی چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
یہ تو ہمیں شکرگزار ہونا چاہئے اردو اخبارات و الیکٹرانک میڈیا کا کہ اردو کو ابھی تک معاشرے سے معدوم نہیں کیا جا سکا۔ دنیا کی قومیں اپنی مادری اور قومی زبانوں میں تعلیم پا کر سائنس و ادب کا تخلیقی سرمایہ بڑھانے میں لگی ہیںاور ہم انگلش میڈیم پرفخر کاتمغہ سجائے گھسی پٹی معلومات کی جگالی کرنے میں محو ہیں کہ ’’غلاموں‘‘ کے نصیب میں بس یہی کچھ آسکتا ہے۔ آج سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دیتی قومی زبان اپنا حق مانگ رہی ہے اور عالی مرتبت عدالت استفسار کر رہی ہے کہ کس نے قومی زبان کودفتروں میں نافذ کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔ آئین کے مطابق اردو کا 1988ء میں دفاتر میں نفاذ ہو جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا تو معاملہ سپریم کورٹ لے جایا گیا۔ کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔
گزشتہ روز پھر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو عمل درآمد کے حوالے اقدمات اٹھانے کے لئے مزید مہلت دیتے ہوئے قرار دیا کہ وزیراعظم کی مصروفیت اپنی جگہ مگر انہیں اپنی آئینی ذمہ داریاں اور عدالتی احکامات کو بھی دیکھنا چاہئے، کیا عدالت کوئی سخت حکم جاری کرے؟ یہ ہمارا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں، عوام کے بنیادی حقوق اور آئین پاکستان پر عمل درآمد کا معاملہ ہے۔ سیکرٹری اطلاعات نے بیان کیا کہ اس حوالہ سے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ان کی جانب سے بھجوائی گئی سمری پر غور کرنا تھا لیکن وزیر اعظم کو یکدم کراچی جانا پڑا تو کابینہ کا اجلاس ملتوی کردیا گیا جس وجہ سے اس حوالہ سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے جس پر جسٹس جواد نے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے آئینی تقاضا پورا نہیں کرنا ہے تو عدالت کو بتا دیں، یہ ہماری ذاتی خواہش نہیں ہے بلکہ آئین کا تقاضا ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ملک میں اردو کے بطور قومی زبان نفاذ آئینی تقاضا ہے، اگر اردو کا نفاذ نہیں کرنا تو آئین میں ترمیم کر دی جائے کہ ملک کی قومی زبان لاطینی ہے۔
جواب تو آتا رہے گا مگر ہم مشاہدہ کرنے والے جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ ظالم وجابر گروہ جس کے قومی زبان کواپنے حق اور مقام سے محروم رکھا ہے وہ سی ایس پی کلاس ہے جس کا جاہ وجلال اور اولادوں کا مستقبل اردوکوکچل کر رکھنے اور انگریزی کا حاکمانہ تسلط قائم رکھنے سے مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ دوسراطبقہ جاگیرداروںکاہے جو وزیر و مشیر وغیرہ کہلاتے ہیں۔ خاکی پوشوں کے دور میںوہی سب کچھ ہوتے ہیں مگروہ تو بلاتکلف آئین کوویسے ہی ایک طرف لگا دیتے ہیںکہ ان کی نگاہ میں یہ کتابچہ اس قابل ہی نہیں ہوتا کہ اس پر نگاہ ڈالی جاسکے اور جان کی امان ہوتو خود بعض اساتذہ نے بھی مغربی طرز تعلیم کے اداروں میں نشوونما پاتی اپنی اولادوں کے مفادات کے تحفظ میں اے لیول کو برابری کاسرٹیفکیٹ جاری فرماکرمیرٹ کی بے قدری میں حصہ لیا ہے۔ راقم بائیو کا طویل المدت استادی کازمانہ گزارنے کے پس منظر میں بخوبی آگاہ ہے کہ قومی تعلیمی بورڈوں کی تعلیم کوبے وقعت بنانے میں عدالتی کرسیاں بھی شریک ہو گئیں ورنہ میڈیکل کالجوں میں داخلہ سوفیصد میرٹ پر ہوتا تھا اور انگلش میڈیم طلبہ طالبات کو نوازنے کا انجینئرڈ میکنزم موجود نہیں تھا۔
ہماری تعلیمی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہر بچے بچی پر ’’انگریزی لازمی‘‘ کا قانون ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ مڈل، میٹرک، انٹر ڈگری کے ہر بچہ اور بچی کیلئے انگریزی میں پاس ہونے کا جبر کیوں؟جب عربی وفارسی اختیاری زبانیں ہیں تو انگریزی کیوں نہیں؟ ایک جملہ ہمارے ہاں مقدس فرمان کے طور پر دہرایا جاتا ہے کہ ’’انگریزی بین الاقوامی زبان‘‘ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024