دو اداروں کی ملی بھگت 38مربع اراضی جی سی یونیورسٹی کے میگا پراجیکٹ کے لئے اراضی کا معاہدہ ،عوامل کیا ہیں؟ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ازخود نوٹس لیں
دو اداروں کی ملی بھگت 38مربع اراضی جی سی یونیورسٹی کے میگا پراجیکٹ کے لئے اراضی کا معاہدہ ،عوامل کیا ہیں؟ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ازخود نوٹس لیں
احمد کمال نظامی
تعمیراتی منصوبوں پر کرپشن روکنے کے لئے حکومتی سطح پر تحقیقاتی بورڈ بنائے جائیں
65 سے 70سال کی عمروں پر کام کرنے والے ملازمین کی تقرریوں کا نوٹس لیا جائے
کرپشن کیسے ختم ہوگی‘ کون کرے گا؟
پاکستان کواس کے قیام سے لے کر اب تک نہ صرف کرپٹ سیاستدانون نے معاشی طورپر کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ پاکستان کے مختلف قومی اداروں میں بھی کرپشن کاناسور اس حد تک رائج کر چکاہے کہ کرپشن کی تحقیقات کرنے والی عالمی ایجنسیاں پاکستان کو پہلے درجے میں دکھاتی ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی ادارے کے چٹراسی اورکسی بھی تھانے یاپولیس چوکی کے عام کانسٹیبل سے لے کر بڑے بڑے اداروں تک بدعنوانی کے ناسور نے اپنی جڑیں پھیلا رکھی ہیں۔ پولیس‘ واپڈا ‘ تعلیم‘ صحت‘ ریلوے ‘ پی آئی اے‘ ایف آئی اے‘ وفاقی و صوبائی ادارے حتیٰ کہ ماتحت عدلیہ تک کے دفاتر میں کرپشن کااژدہا منہ کھولے بیٹھا ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کایہ زہر ہماری سماجی‘ سرکاری ونیم سرکاری زندگیوں میں اس بری طرح پھیل چکاہے کہ رشوت‘ سفارش‘ دباﺅ‘ دھونس اور دھاندلی کے سوا کسی کام کے ہونے کا دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان میں سٹیل ملز کراچی کرپشن کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ یہ ادارہ جو ہرماہ اربوں روپے کما کردے سکتاہے۔ اس میںسیاسی بھرتیوں اور سیاسی وفاداریوں کی بنیاد پر بچھائی گئی انتظامی شطرنج کاہر ہر مہرہ دونوںہاتھوں سے قومی دولت کو لوٹنے میںمصروف ہے۔ یہی صورت حال قومی ایئرلائن پی آئی اے کی ہے اور اس کی وجہ بھی غیر قانونی بھرتیوں کی بھرمار کے نتیجے میں اس کے کارپر وازوں کی ہوس زر اور اس ہوس کو پورا کرنے کیلئے ان کی بداعمالیاں ہیں۔ چند روز پہلے سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کوایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن(ای او بی آئی) کے حکام کی طرف سے 40 ارب روپے کی مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کاحکم دیتے ہوئے اس کی 18میگا ٹرانسزیکشنز میںہونے گھپلوں کی مکمل رپورٹ 10میںسپریم کورٹ میںجمع کرانے کاحکم دیاہے۔40ارب کی یہ اس ادارے کے سربراہ ظفر اقبال گوندل کو ادا کی گئی اورانہوں نے اس رقم کی18 مختلفٹرانسزیکشنز میں منتقلی کی اور اس طرح اربوںروپے کے مختلف لین دین کو ایک فرد واحدکے ذریعے ‘ انتہائی غیر قانونی طریقے سے مکمل کیا گیا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتاہے کہ انہوں نے متعلقہ اداروں کو کتنی رقوم منتقل کیںاورہر ٹرانسزیکشن سے اس سلسلہ میں کتنا کمیشن وصول کیا۔ وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف نے وفاقی وزراءاور سیکرٹریز کو لکھے گئے ایک خط میں بھی یہ کوشش کی ہے کہ قومی وسرکاری اداروں میں تعینات بدعنوان افسروں سے انہیں انتظامی عہدوں پر رکھنے کے جو معاہدے کئے گئے ہیں وہ ختم کئے جائیں اور ان کی جگہ اچھی شہرت کے ایمان دار افسروں کوتعینات کیاجائے۔ میاںنوازشریف نے تواپنی پارٹی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے بھی یہ حلف لے رکھاہے کہ وہ نہ خود کرپشن کریں گے اور نہ کسی کرنے دیں گے لیکن فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے صوبائی کابینہ کے وزیر رانا ثناءاللہ سے جو ہر ویک اینڈپرفیصل آباد میں ہوتے ہیں یہ کیوںنہیںپوچھا جاتا کہ ملک کے ا س تیسرے بڑے شہر میںکس کس ادارے میں کرپشن مافیا نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ فیصل آباد کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ایسے ریٹائرڈ افسروں کواپنی یونیورسٹی میں ملازمتیں دے رکھی ہیں جن کی عمریں 65سال سے بلکہ بعض افسروں اور پروفیسروں کی عمریں تو 70سال سے بھی زائد ہوچکی ہے اور اس قسم باتیں بالعموم گردش میں رہتی ہیں کہ یہ افراد وائس چانسلر کا نیٹ ورک ہے جو وہ اپنے ساتھ لائے ہیں وہ زرعی یونیورسٹی سے ڈین کے عہدہ سے ریٹائرہوئے۔ جی سی یونیورسٹی سرگودھا میںریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ کی ملازمت پر ڈین رہے اور اب جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میںوائس چانسلر ہیں اور انہوںنے اس یونیورسٹی کے لئے سب سے بڑا کارنامہ یہ کیاہے کہ نہر رکھ برانچ کے کنارے شہر سے چند میل باہرسابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے دورمیں زمینداروں اور کسانوں سے خریدی گئی 38 مربع زمین ‘ جھنگ روڈ پر ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کو نیو کیمپس کی تعمیر کیلئے4مربع اراضی کے عوض منتقل کرادی ہے۔ اس معاہدے میں دونوں اداروں کے سر براہوں نے کیا کیا کمایا اورکیاکیا گنوایاہے۔ اس سلسلہ میں تحقیقات ہونی چاہئے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو از خود نوٹس لے کر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے نئے کیمپس کیلئے خریدی گئی اس 38مربع اراضی کو دو اداروں کے سربراہوں کی ملی بھگت سے ایک ادارے سے دوسرے ادارے کو منتقل کئے جانے کے اصل محرکات سامنے لائیں اور نہر رکھ برانچ کے دونوں طرف پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کی طرز پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد نیا کیمپس تعمیر کرنے کامیگا پراجیکٹ مکمل کرنے کاحکم دیں۔ فیصل آباد کے جن تعلیمی اداروں میں تعمیراتی کاموں پر گھپلوں کی اور من پسند ٹھیکیداروں کی تعیناتی کی شکایات ہیں وہاں بھی حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں تحقیقاتی کمیٹیاں بنائیں تاکہ پائی جانے والی ان شکایات کا ازالہ ہو سکے اور جو بھی صورت حال ہو وہ عوام کے سامنے لائی جا سکے۔ راناثناءاللہ خاں نے گزشتہ روز فیصل آباد کے دورے پر فیصل آباد میں منعقدہ بعض تقریبات سے خطاب کے دوران یہ نوید سنائی ہے کہ بجلی پیداکرنے کے متعدد منصوبے حکومت کے زیر غور ہیں اور جلد ہی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے جان چھڑالی جائے گی۔ حال ہی میں حکومت نے بجلی کی پیداوار کے گردشی قرضے503ارب روپے کے خاتمے کاجو اعلان کیاہے اس گردشی قرض کی وجوہات تک پہنچاجائے تو معلوم ہوگا کہ اعلیٰ افسروں سے لے کرلائن مین تک کی کرپشن کے نتیجے میں اتنی بڑی مالیت میں یہ قرض قوم کے گلے مین ڈال دیا گیا ہے، جسے وزارت خزانہ نے جیسے تیسے ختم کیا ہے اگر اب بھی واپڈا اور اس کے تقسیم کار اداروں کوکرپشن سے نہ روکاگیا تو گردشی قرضے پھر سے اربوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ پورے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث گھروں میں بجلی تو بہت کم آتی ہے البتہ بجلی کے بل اس قدر بھاری ہوتے جارہے ہیں کہ عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ حکومت اگرکرپشن مافیا سے نجات چاہتی ہے تو اس کے خاتمے کااعلان اوپر سے ہونا چاہئے اور وزیراعظم میاںنوازشریف کوگز شتہ دور کے حکمرانوں کی طرف ڈھونڈ کر مختلف اداروں میں ایسے سر براہ تعینات کرنے سے گریز کرنا چاہئے جو لوٹ مار کرکے بعد میںوزیروں سفیروں کی مدد سے ”توقیر صادق“ بن جاتے ہیں۔ایک مرتبہ پھر کہاجارہاہے توتوقیر صادق کو واپس لایاجارہاہے۔ کرپشن کے اس شاہکار کو ملک سے فرار کرانے والوں کے خلاف سپریم کورٹ تو یقینا بہت کچھ کررہی ہے لیکن حکومت پنجاب کو اپنی ناک کے نیچے بیٹھے ہوئے پیپلزپارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل کو محض اس لئے نظر انداز نہیں کردینا چاہئے کہ صدر زرداری نے انہیں پارٹی کی سیکرٹری شپ سے الگ کردیاہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ماضی میں صدر‘ وزیراعظم‘ وفاقی وزرائ‘ وزرائے اعلیٰ‘ مرکزی و صوبائی سیکرٹریز کے علاوہ اعلیٰ حکومت افسر اور ان کے درجہ چہارم کے ملازم تک کی اکثریت بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی نہ کسی شکل میں کرپشن کاحصہ رہے ہیں۔ یہ کرپشن کک بیکس‘ کمیشن اور مک مکا سے لے کر منہ میٹھا کرنے اور چائے پانی کی شکل میں بھی ہوتی رہی ہے۔ اس لوٹ مار سے ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں نے اربوں ڈالرز کی رقوم سوئس بینکوں میںجمع کرارکھی ہے جن کو اگر واپس لایا جاسکے تو ملکی معیشت اگلے کئے عشروں تک بحرانوں سے نجات پاسکتی ہے ۔کرپشن‘ اقربا پروری اوررشوت و سفارش جیسی برائیوں نے ہمارے سماج کو جس طرح کینسر زدہ کررکھاہے اس کے ہم میں سے ہر ایک کو کسی بھی اپنے پرائے اور سرکاری و غیر سرکاری دباﺅ کوخاطر میں لائے بغیر اپنا اپنا کردار اداکرنا چاہئے۔ عوام نے وزیراعظم میاںمحمدنوازشریف سے کرپشن کے خاتمے کیلئے تو قعات باندھ رکھی ہیں لیکن حکمرانوں میں اب بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں ۔چنانچہ جب تک جسٹس افتخار محمدچوہدری ملک کے چیف جسٹس ہیں اس وقت ملک سے کرپشن کے خاتمے کی امید زندہ ہے۔