ملک میں بجلی کی پیداوار ،نجی شعبہ اور حکومت سے عوام کی توقعات

Jan 04, 2025

عبدالستار چودھری 

پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداوار ( انسٹالڈ کیپسٹی) 42 ہزار میگاواٹ یومیہ ہے جبکہ ہم گرمیوں میں صرف 27 سے 29 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں کیونکہ اس سے زیادہ بجلی اگر بنا بھی لی جائے تو اس کی ترسیل ممکن نہیں، ہماری ٹرانسمیشن لائینیں بوسیدہ ہونے کی وجہ سے ٹرپ کر جاتی ہیں، ٹرانسفارمر جل جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں توانائی کا مسئلہ ایک سنگین بحران بن چکا ہے، جو نہ صرف ملکی معیشت بلکہ عوامی زندگی اور صنعتی ترقی کو بھی بری طرح متاثر کررہا ہے۔ بجلی کی قلت نے روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کردیا ہے اور صنعتوں کو بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا ہے۔ اگرچہ حکومت عوام کو توانائی کے شعبے میں ریلیف فراہم کرنے کے دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن 2024 میں بھی بجلی کے بھاری بھر کم بلوں نے عوام کا جینا دْوبھر کیے رکھا۔ طرح طرح کے ٹیکسز، کمپنیوں کے نقصانات اور ایڈ جسٹمنٹس کے نت نئے فارمولوں نے صارفین کو بجلی کے جھٹکے لگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ایسی بے خوف ہو چکی ہیں کہ صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے اور نیپرا کے ڈھیلے ڈھالے ایکشن بھی اب ان  کمپنیوں کی اصلاح نہیں کر پاتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں ماہانہ اور سہ ماہی فیول ایڈجسٹمنٹس، لائن لاسز، اور کیپسٹی پے منٹس کی مد میں کمپنیوں نے نہ صرف بجلی صارفین پر اربوں روپے کا بوجھ ڈالا بلکہ قومی خزانے کو بھی تقریبا 600 ارب روپے کا ٹیکہ لگایا۔ نیپرا کی وجہ سے فیول ایڈ جسٹمنٹس کی مد میں یہ سال صارفین کے لئے مشکلات سے بھرا رہا۔ وقتا فوقتا نرخ بڑھا کر عوام کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ ایک سال کے دوران ڈیسکوز صارفین کے لئے بجلی 39 روپے 25 پیسے فی یونٹ اور کے الیکٹرک صارفین کیلئے 26 روپے 11 پیسے فی یونٹ تک مہنگی کی گئی۔ ایک سال میں  ماہانہ فیول ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں 8 مرتبہ اضافہ اور 4 دفعہ معمولی کمی کی گئی۔ کیپسٹی پے منٹس اور آئی پی پیز کے ایشو پر اس سال کافی ہنگامیہ خیزیاں دیکھنے میں آئیں، پہلے تو صرف اپوزیشن جماعتیں ہی آواز اٹھاتی تھیں لیکن رواں برس حکومتی حلقوں سے بھی آوازیں اٹھیں اور بعض سابق نگران وزرا بھی میدان میں کود پڑے۔ پارلیمنٹرین نے بھی ایوان میں عوام کی بھر پور ترجمان کی۔ نتیجتاً عوام کے دباؤ پر بڑے پیمانے پر اصلاحات کرتے ہوئے متعدد آئی پی پیز کیساتھ معاہدے ختم کیے گئے جبکہ کچھ کیساتھ بات چیت کی جا رہی ہے۔

 ماحول دوست توانائی اور سستی بجلی کے منصوبے پر رواں سال کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی تاہم صرف تین ماہ کیلئے پنجاب حکومت نے 200 یونٹ تک والے صارفین کو وقتی ریلیف ضرور دیا ہے۔ توانائی کی پیداوار اور طلب کے درمیان موجود فرق نے حکومت کیلئے اس چیلنج میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ابھی تک طویل مدتی حکمت عملی کی شدید کمی ہے۔ ملک میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کی جارہی ہے، جن میں فرنس آئل، گیس، کوئلہ، ہوا، اور شمسی توانائی شامل ہیں۔پرائیوٹ پاور انفرااسٹرکچر بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت مجموعی طور پر 101 نجی بجلی پیدا کرنے والے ادارے، یعنی انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کام کررہے ہیں۔ توانائی کی پیداوار میں یہ ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، بشرطیکہ ان کے ساتھ معاہدوں کے تحت شفاف اور بہتر طور پر عملدرآمد کیا جائے۔ پاکستان میں توانائی کے بحران کی ایک بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی اور غیر موثر حکومتی پالیسیاں ہیں۔ حکومتیں ہمیشہ قلیل مدتی حل تلاش کرتی رہی ہیں، جبکہ طویل مدتی منصوبے بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ بجلی کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ ماضی میں حکومت نے نجی بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے ساتھ مہنگے معاہدے کیے، جن کے ذریعے براہ راست عوام لوٹ کھسوٹ کا شکار بنائے گئے۔ ان معاہدوں میں شفافیت کی کمی اور مہنگے داموں بجلی خریدنے کی پالیسی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔
بجلی کی ترسیل کے دوران بڑے پیمانے پر نقصانات اور چوری کی وجہ سے نظام کو ناقابل اعتبار بنادیا گیا ہے۔ ملک میں بجلی چوری کے واقعات کو روکنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، جس سے نہ صرف مالی نقصان ہورہا ہے بلکہ بحران میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں ہوا اور شمسی توانائی جیسے متبادل ذرائع کی بھرپور صلاحیت موجود ہے، لیکن ان سے فائدہ اٹھانے کی رفتار انتہائی سست ہے۔ حکومت ان وسائل کے فروغ میں ناکام رہی ہے، جو توانائی کے بحران کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کا بجلی ترسیلی نظام پرانا اور غیر مؤثر ہے، جس کے باعث نہ صرف بجلی ضائع ہوتی ہے بلکہ صارفین کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بجلی کے ترسیلی نظام کو مضبوط بنا کر نا صرف نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے بلکہ توانائی کے بحران کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کو جامع اور مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ طویل مدتی منصوبہ بندی کے ذریعے بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ متبادل توانائی کے ذرائع جیسے ہوا، شمسی توانائی، اور بائیو ماس پر سرمایہ کاری بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ ذرائع نا صرف سستے ہیں بلکہ ماحول دوست بھی ہیں، جو پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکالنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ پاکستان میں صرف ونڈ پاور جنریشن کی صلاحیت 70 ہزار میگاواٹ ہے اسی طرح کوئلہ سے لاکھوں میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ ہائیڈل پاور جنریشن کی استعداد کار بھی بہت زیادہ ہے جیسے کالا باغ ڈیم، داسو ڈیم، دیامر بھاشا ڈیم اور دیگر بہت سارے ڈیم بن سکتے ہیں۔ پاکستان کے مقامی وسائل جیسے تھر کا کوئلہ توانائی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ان وسائل کو بہتر حکمت عملی کے تحت استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ عوام کو توانائی کے مؤثر استعمال اور بجلی کی بچت کے حوالے سے آگاہی دینا ضروری ہے۔ حکومت اور نجی شعبہ شفافیت، شمولیت، اور طویل مدتی پالیسیوں کے ذریعے پاکستان  میںاس مسئلے کو حل کر کے اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ توانائی کا بحران محض ایک چیلنج نہیں بلکہ ملکی ترقی کیلئے ایک موقع بھی ہے کہ اس سے سیکھتے ہوئے بہتر مستقبل کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ جدید انفرا اسٹرکچر، مضبوط قوانین، اور عوامی شراکت کے ذریعے پاکستان توانائی کے اس مسئلے پر قابو پاسکتا ہے اور ترقی کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔

مزیدخبریں