اپنے حقوق پہچانو 

Jan 04, 2025

رقیہ غزل

ابھی میں اسی مخمصے میں تھی کہ وہ لوگ جو کل تک ہر جلسے جلوس حتیٰ کہ ایوانوں میں بھی یہی راگ الاپتے نہیں تھکتے تھے اگر ہمارے کشکول کو خالی لوٹا دیا گیا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔انھوں نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں پانچ سے دس گنا اضافہ کیسے کر لیا جبکہ عوام تک معاشی ترقی کے ثمرات پہنچے بھی نہیں۔ بس لفاظی ہی لفاظی ہے اور حقائق تلخ ہیں اسی اثنا میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا بیان نظر سے گزرا :” ہم نے چالیس منٹ آتشبازی کر کے ریکارڈ توڑ دیا ہے “۔۔مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ یہ کس قدر بے حس لوگ ہیں، پورا سال ملک در ملک گلے میں کشکول لٹکائے گھومتے ہیں، تقریباً ہر قیمتی چیز مبینہ طور پرگروی رکھ بیٹھے ہیں بلکہ اونے پونے داموں بیچنے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں اور سندھ کی مجموعی صورتحال کس سے چھپی ہے کہ کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہیں اور اموات کی کوئی حد نہیں ، پانی کی قلت جانیں لے رہی ہے ، بھوک و ننگ ناچتے پھرتے ہیں اور یہ شرلیوں پٹاخوں میں کروڑوں اڑا رہے ہیں اور فخریہ بتا رہے ہیں۔سچ ہے:
 وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا 
ہمارے ملک میں تو جس رفتار سے بیروزگاری اور مہنگائی بڑھی ہے کہ جائز و ناجائز ٹیکسوں اور پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ ادویات کی قیمتوں میں جس طرح تاریخی اضافے ہوئے ہیں اس کے بعد تو دو وقت کی روٹی مشکل سے مل رہی ہے۔ امیر اور غریب برابر ہوچکا ہے تو ایسے میں آتشبازی، کھیلوں ، میلوں اور جشنوں کے لیے سرمائے کہاں سے آجاتے ہیں ؟ یہ فضول خرچیاں اور اللے تللے کرنے والے مٹھی بھر سرمایہ دار اور ان کی اولادیں ہیں جو نسل در نسل وڈیرہ شاہی اور افسر شاہی کے مزے لوٹتی چلی آرہی ہیں باقی وہ ہیں جو ان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور بدلے میں پاتے ہیں۔ عام آدمی تو بس تالی بجانے والا بن کے رہ گیا ہے جسے روٹی یا پیسوں کا لالچ دیکر ایسے میلوں ،سیاسی مجموعوں اور جشنوں میں بلایا جاتا ہے۔روٹی میں کشش ہی بہت ہے کیونکہ زندگی کی ساری جنگ ہی روٹی کی ہے۔روٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ علامہ اقبال جن کا واسطہ کمیونزم سے بالکل نہیں تھا وہ بھی کہنے پر مجبور ہوگئے کہ :
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی 
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
در حقیقت آسمان کی وسعتوں میں آتشبازی کے بلند ہو تے شعلے ، رنگ برنگی لائیٹوں سے دلہن کی طرح سجی عمارتیں اور راستے، اندھا دھند فائرنگ کی گونج میں سہمی غریب بچوں کی کلکاریاں اور آسمان کو رنگین کرتی پھلجڑیاں مفلسی کا مذاق اڑاتی ہیں لیکن اس شوراور غل غپاڑے میں چھپی وحشت چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ 
تجھے ہونا تھا فرشتوں سے بھی افضل 
لیکن ہائے انسان ت±و درندوں سے بھی بدتر نکلا
 بلاشبہ ”مرگ احساس یہ آدم بد ترین مرگ دنیا ست “احساس کی موت دنیا کی بد ترین موت ہے۔احساس ہی تو مر چکا ہے ورنہ ہم ایسے اللوں تللوں اور بیان بازیوں کی بجائے یہ سوچتے کہ ہم نے گذشتہ سال کیا کھویا اور کیا پایا ؟ انسانی حقوق کی پامالی میں کتنی رسوائی ہمارا مقدر بنی ؟ عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچے ؟ تشہیر کے لیے پانی کی طرح بہایا جانے والا پیسہ کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر گیا ؟ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ہم سے آگے کیسے گزر گئے ؟ ایشائی خطے میں ہمارا مقام کیا ہے ؟ ہمارا تعلیمی نظام کہاں کھڑا ہے ؟ ہمارے بچے کس ثقافت کو اپنا رہے ہیں ؟ وہ دو قومی نظریہ جو حصول پاکستان کی بنیاد بنا ہم سے کب اور کیسے چھین لیا گیا ؟ ہماری اقدار و روایات کو مغرب کی چکا چوند کیسے اور کیونکر چاٹ گئی ؟ کالجوں میں رقص و سرود کی محفلوں کا انعقاد کونسی ترسیل اقدار کا حصول ٹھہریں ؟ ہمارا میڈیا غیر اخلاقی مواد اور مغربی تہذیب کیسے اور کس کی ایما ء پر دکھانے لگے ؟ ہمارا تھیٹر بے حیائی اور عریانی کے فروغ کے آلہ کار کے نام پر دنیا میں زیر بحث کیوں ہے ؟ ہمارے دلوں سے خوف الہی اور خوف آخرت کب اور کیسے ختم ہوا ؟ ہم اپنے پیارے نبی حضرت محمد کی تعلیمات بھلا کر نام نہاد فرقوں اور ذاتوں میں بٹ کر تفرقہ بازی کا شکار کیسے ہوئے؟ ہمارے اندر سے فکر زیاں کب ختم ہوا اور کب نفرت و عناد نے بھائی چارے اور صلح رحمی کی جگہ لے لی ؟افسوس۔۔ نفسا نفسی نے سوچنے ہی نہ دیا اور جنھوں نے سوچا وہ پتھر ہوگئے یا پتھر بنا دیے گئے کہ پرانی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔
عوامی رائے یہی ہے کہ تجربہ کار خوشحالی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے اور مہنگائی کم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اور اسی بے حسی ، حکومتی پالیسیوں اور اخراجات سے دلبردشتہ ہو کر حکومتی ماہر قیصر بنگالی بھی مستعفی ہوگئے تھے اور یہ کہہ گئے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کے بعد معیشت کا استحکام عارضی ہے مزیدجس احساس کا لبادھا اوڑھ کر انھوں نے عوام کو رام کیا تھا اس کا بھرم بھی کھل چکا ہے کیونکہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں کے اضافے کئے گئے ہیں مگر عوام کو بلوں میں ناجائز ٹیکسوں پر بھی ریلیف نہ مل سکا ۔
چلیں روٹی تو چھینی ہی تھی تفریح بھی عام آدمی سے چھین لی گئی ہے۔ حکومت نے ڈیڑھ سو سال پرانا لاہور چڑیا گھر ٹھیکے پر دے دیا اور اب مجموعی طور پر 1100روپے فی فرد ٹکٹوں کی مد میں وصول کئے جائیں گے۔۔ایسی خود غرضی کہ آج ہر کس و ناکس کہہ اٹھا ہے کیا اسی کا نام ہمدردی ہے۔۔مٹ گئے ہم ،تمھارے لب نہ ہلے “۔
بہرحال 2025 کے آغاز میں ، آج میں یہ کہنے پر مجبور ہوں” میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں ،جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں “حقیقتاًعوام قصوروار ہیں، جو ہر زیادتی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں ، سوچتے بھی نہیں اور مسیحائی کے لیے سیاسی مہاتماﺅں کی طرف دیکھتے ہیں جو کہ مفاداتی آئینی بلوں اور ایجنڈوں پر گٹھ جوڑ کئے،مخالفوں کو ٹھکانے لگانے اور مستقبل کو دلکش بنانے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اوراس کے سوا کچھ نیا بھی نہیں کریں گے۔ویسے بھی حقوق دیتا نہیں کوئی کاسئہ گدائی میں اپنے حق کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔اس لیے اے اشرف المخلوقات ! بیدار قوم کی طرح اپنے حقوق کو پہچانو اور آواز بلند کرو۔۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں