پاک افغان کشیدگی اور ہماری ذمہ داری

Jan 04, 2025

اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ… سفیر حق

24دسمبر 2024ءکو تحریک طالبان پاکستان نے جنوبی وزیرستان میں پاکستان کی ایک چوکی پر حملہ کیا جسکے نتیجہ میں 16 اہلکار شہید ہوگئے جسکے بعد 24 دسمبر کو پاکستان کی جانب سے جوابی سٹرائیک سامنے آئی جس میں افغانستان کے اندر ٹی۔ٹی۔پی کے ٹھکانوں پر حملے کئے گئے اگرچہ ان حملوں کے نتیجہ میں ٹی۔ٹی۔پی۔ کا کوئی بھاری جانی نقصان نہ ہوا ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت کی جانب سے سخت ری ایکشن سامنے آیا جسکے بعد دونوں اطراف سے فائرنگ کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور افغانستان کا کسی بھی اعتبار سے لڑائی میں کوئی جوڑ نہیں بنتا۔پاکستان کے پاس اہک ریگولر آرمی‘ فضائیہ اور نیوی ہے جبکہ افغان حکومت کی کوئی ریگولر آرمی نہیں ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر طالبان نے ایسی ویڈیو شیئر کی ہیں جن میں افغان فوج کی نقل و حرکت کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک ویڈیو ایسی بھی سامنے آئی کہ سوویت یونین دور کے ٹینک گاڑیوں پر لاد کر سرحد کی جانب لائے جارہے ہیں۔دوسری طرف یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ افغانستان کو تاجکستان کے قریب چین سے ملانے والے بارڈر ووہان پر پاکستانی فوج نے قبضہ کر لیا ہے ۔
ہمیں یہ بات ہر صورت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ افغان طالبان اب گروہ نہیں بلکہ ایک ریاست ہے اور کسی بھی ہمسایہ ریاست کیساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی خطے کے امن و استحکام کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ہم طاقت کے بل بوتے پر کابل اور قندھار بھی پہنچ سکتے ہیں تاہم طاقت ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کمزور کیخلاف محاذ کھول لیا جائے۔ ہمیں یہ بات ماننا پڑے گی کہ افغان حکومت کیساتھ کشمکش کے جس لیول پر ہم آج کھڑے ہیں گزشتہ 75 برس کی پاک افغان تعلقات کی تاریخ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ 1947ءسے ڈیورنڈ لائن کے مسئلہ پر افغان بادشاہ ظاہر شاہ کیساتھ تعلقات معمول کیمطابق رہے۔ڈیورنڈ لائن کے مسئلہ پر اختلاف رہا جسکی بنیادی وجہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں پشتون قوم کی وسیع آبادی ہے۔ ظاہر شاہ کی حکومت 1973ءمیں ختم ہوگئی جس کے بعد صدر داو¿د کے پیریڈ میں پشتونستان کا نعرہ بلند ہوا تاہم نور محمد ترک کی شکل میں کمیونسٹ حکومت کیخلاف 1979ءمیں پاکستان کا پلہ بھاری ہوگیا جب امریکہ اور جہادی تنظیموںنے پاکستان کیساتھ ملکر افغان جنگ لڑی اور سوویت یونین کو شکست دی۔
کمیونسٹ حکومت کی شکست کے بعد طالبان حکومت کے قیام اور 9/11 کے بعد دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی جنگ اور اسکے بعد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت میں بھی اتنی کشیدہ صورتحال نہیں رہی جتنی اب ہوگئی ہے۔ اس بات میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا منبع افغانستان ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ بہادر جاتے جاتے اپنا سارا اسلحہ افغانستان چھوڑ گیا جو بعد ازاں تحریک طالبان کے ہتھے چڑھ گیا۔حکومت پاکستان بار بار افغان حکومت کو کہتی ہے کہ دہشت گردی ختم کریں تاہم افغان حکومت نے مسلسل آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ شاید اسی کے سبب حکومت پاکستان نے اب کی بار سخت ایکشن لیا ہے کیونکہ۔ٹی۔ٹی۔پی کے شمالی وزیرستان سے جنوبی وزیرستان اور اسکے بعد بنوں تک پہنچنے کی اطلاعات ہیں جو افغان طالبان کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں اگرچہ ٹی۔ٹی۔پی کی کل تعداد پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ تاہم ٹی۔ٹی۔پی امریکہ کو بھگانے کا کریڈٹ لیتی ہے۔ شاید اسی مغالطے کے سبب انھوں نے یہ خواہش پال رکھی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر بھی اپنی مرضی کا نظام لانے کیلئے کوشش کر سکتی ہے۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ٹی۔ٹی۔پی کیساتھ پشتون انتہا پسند خیالات رکھنے والے لوگ بھی جڑ گئے ہیں۔ 
یہ سوال ہمارے لئے انتہائی اہم ہے کہ ٹی۔ٹی۔پی سے نجات کیسے حاصل ہو جس کے بنیادی ٹھکانے افغانستان کے اندر ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ بمباری سے حل ہونے والا نہیں۔ ہمیں یہ بات بھی ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ٹی۔ٹی۔پی۔ کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ خود کش حملہ آوروں کا ہے۔ ٹی۔ٹی۔پی کا دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاست پر یقین نہیں رکھتے جسکے باعث وہ ڈائیلاگ کو بھی نہیں مانتے۔ 
موجودہ عالمی سیاسی صورتحال کے تناظر میں پاک افغان کشیدگی کو بڑی باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ دو طرفہ لڑائی انتہائی حساس مسئلہ ہے اور معاملہ کی نزاکت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب دوسری طرف واسطہ ابنارمل طالبان سے ہو جو عوام الناس کے گھروں میں ہوا کیلئے لگی ہوئی کھڑکیوں کو بھی بزور طاقت بند کرا رہی ہے کہ اس سے بے پردگی ہوتی ہے۔ طالبان کی ابنارمیلٹی کو دیکھتے ہوئے ہمیں ان غلطیوں سے بھی بچنے کی ضرورت ہے جو ہم نے ماضی میں انکو مضبوط کرنے کیلئے کی ہیں۔پاکستان ایک ذمہ دار ریاست اور نیوکلیر پاور ہے۔جس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہر عمل میں بین الاقوامی سطح پر اپنی بہترین ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دے۔
موجودہ کشیدہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ٹھوس افغان پالیسی بنانے کی ضرورت آن پڑی ہے جو اب تک ہماری ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہا ہے اور ہم نے چل چلاو¿ سے کام لیا ہے۔حکومت کا تاجکستان میں موجود افغان تاجک لیڈروں کیساتھ ملکر افغان حکومت پر پریشر بڑھانا ایک بہتر پالیسی ہے تاہم بمباری سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ ہمیں افغان حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ طالبان کو کنٹرول کرے۔گولہ باری کی بجائے اپنے معاملات بیلنس رکھنے کی ضرورت ہے۔افغان حکومت کیساتھ بڑھتا ہوا تضاد پاکستان کیلئے کسی طور پر بھی فائدہ مند نہیں کیونکہ اسرائیل‘ امریکہ اوربھارت کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کے اشارے پاکستان کیلئے کوئی اچھے اشارے نہیں ہیں۔ بھارتی میڈیا پاک افغان کشیدگی کو ایکسپلائٹ کر رہا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کی پالیسیاں بھارت نواز ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ پاک افغان کشیدگی اور اسکے ساتھ جڑے تمام معاملات کو قومی تناظر میں دیکھیں کیونکہ اگرپاک افغان ایشو پر دیگر ممالک دخل اندازی کرتے ہیں تو وطن عزیز کیلئے ایسی صورتحال نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔یہاں وہ طاقتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں جو تباہی چاہتی ہیں مسلم ورلڈ کا نیا محاذ جنگ نہیں کھلنا چاہیے۔ اقتدار آتاجاتا رہتا ہے ملک ہے تو ہم سب ہیں۔ملکی سالمیت کیلئے ہمیں باہم مل بیٹھنا ہوگا۔

مزیدخبریں