
نئے سال کی کچھ پیش گوئیاں پیشِ خدمت ہیں۔ قاعدے سے یہ پیش گوئیاں یکم تاریخ کے اخبار میں دینا چاہئیں تھیں لیکن مسلسل تین روز نئے سال کی ”تقریب“ مناتا رہا۔ تقریب سے مراد آپ جشن یعنی ہیپی نیو ایر کا ہلّہ گلّہ مت سمجھیے۔ جشن اشرافیہ منایا کرتی ہے اور میں اشرافیہ نہیں ہوں۔ میری تقریب دراصل سلسلہ روز و شب پر غور تھا، لاحاصل اور بے نتیجہ غور۔ سلسلہ روز و شب جو دنوں کو مہینوں میں، مہینوں کو برسوں میں بدل دیتا ہے اور اسی میں عمر دراز محض چار دن میں کٹ جاتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا
سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات
ترے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
میرے لیے یہ نظم کارِجہاں بے ثبات ، کارِجہاں بے ثبات کے مصرعے پر ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں سے ”رنگ ثبات ددام“ والے نقش کی بات شروع ہوتی ہے، وہاں سے یہ نظم میرے لیے غیر متعلق ہو جاتی ہے کہ میں ”مرد خدا“ نہیں۔ مردانِ خدا ہوتے ہوں گے، ملتے نہیں ہیں۔ کہیں نظر نہیں آتے، ہم سب، یا ہم سب کی اکثریت مردانِ زر پر مشتمل ہے۔ جن کے پاس زر ہے، وہ بھی اور جن کے پاس زر نہیں ہے، وہ بھی ۔ اقبال زندہ ہوتے تو اپنے ایک مشہور مصرعے کو بدل کر یوں کر دیتے کہ
ان جملہ خداﺅں میں بڑا سب سے یہ ”زر“ ہے۔ منیر نیازی نے ایک کمال کی نظم کہی تھی (ان کی کون سی نظم ہے، ویسے، جو کمال کی نہیں۔ پہلا مصرعہ یہ تھا کہ اج دا دن بھی ایویں لنگھیا۔ یعنی یہ دن بھی بس یونہی بے کار گزرا۔ دن کی اصل الصفات ہے ہی یہی، وہ ہمیشہ یونہی گزر جاتا ہے۔ پوری عمر ہی یوں ہی گزر جاتی ہے۔ پھر چاہے غالب ہو یا منیر یا بھگت کبیر۔ جو بات کو سمجھ جاتے ہیں، ہاتھ ان کے بھی کچھ نہیں آتا، جو نہیں سمجھ پاتے، ہاتھ ان کے بھی کچھ نہیں آتا۔ کسی کو فخر ہے کہ یہ سب میرا ہے ، کسی کو حسرت ہے کہ کچھ بھی میرا نہیں ہے۔ فخر اور حسرت کی مشترکہ منزل بہرحال قبر ہی ہے۔ وہی قبر جس کی شب ہائے دراز کا شکوہ اقبال نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ عرض یک دو و نفس سے اس کی کیا نسبت ہے؟
نئے سال کا جشن اشرافیہ کا حق ہے، وہی منا سکتی ہے اور وہی منا سکتی ہے۔ غیر اشرافیہ کے لیے سارے دن ایک جیسے ہیں، ہر روز کا آٹا دال، ہر روز نئے چشمے کے لیے کوہ کنی۔
__________
نئے سال میں بھی عوام کے لیے سلسلہ روز و شب گھمبیر رہے گا بلکہ گھمبیر تر ہوتا جائے گا۔ وزیر اعظم سستے آٹے کے لیے کپڑے بیچنے کے عزم کا اعادہ کرتے رہیں گے اور آٹا مہنگا سے مہنگا اورکم یاب سے کم یاب ہوتا رہے گا۔ گاہے گاہے یہ خبر بھی بریک کی جاتی رہے گی کہ ملک نازک دور میں داخل ہو گیا ہے، عوام کو قربانی دینا ہو گی۔ قربانی دینے کی طاقت رکھنے والوں کو قربانی دینے سے استثنیٰ اور چھوٹ بدستور حاصل رہے گی۔ مسلم لیگ کی طرف سے نواز شریف کی بہت جلد واپسی کے اعلانات 31 دسمبر تک ہوتے رہیں گے اور اگلی یکم جنوری سے ان اعلانات کا نیا کھاتہ کھلے گا۔ عمران خاں اس سال لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان نہیں کریں گے لیکن بہت جلد حقیقی آزادی کے لیے آخری کال دوں گا والے اعلانات کرتے رہیں گے۔ شیخ رشید بدستور ہر تیسرے دن ”اگلے دس روز بہت اہم ہیں“ کی پیش گوئی کرتے رہیں گے۔ آصف زرداری جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں فتوحات کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ کراچی میں بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار پر گامزن رہے گی۔ دوسرے مذہبی گروہ بھی اس کارِخیر میں حصہ ڈالتے رہیں گے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رہے گی اور مسئلے کی جڑ پر نظر ڈالنے سے پرہیز پر بھی سختی سے عمل ہوتا رہے گا۔ تعلیم اور صحت کے نظام کی بیخ کنی کا عمل بھی حسب سابق جاری رہے گا۔
غیرت کے نام پر قتل کی شرح بڑھ جائے گی۔ بچوں کی لاشیں برآمد ہونے کی رفتار بھی تیز ہو گی۔ فاقوں سے خودکشی کی وارداتوں میں حوصلہ افزا اضافہ ہو گا۔ جرائم کے گروتھ ریٹ میں سو فیصد اضافے کا ہدف سال کے وسط میں حاصل کر لیا جائے گا۔ باقی ماندہ نصف سال میں ہم بہت ”سرپلس“ ہو جائیں گے۔ سی پیک بہت جلد بحال ہو گا کے اعلانات میں تیزی آ جائے گی۔
خان صاحب کی آڈیو اور وڈیو لیکس وقفوں وقفوں سے ہوتی رہے گی اور خان صاحب کا یہ نعرہ حق بھی بلند ہوتا رہے گا کہ ”ہاں، میں ہوں۔ تو اس تو پر تبصرہ کرنے کے لیے مولانا طارق جمیل دستیاب نہیں ہو سکیں گے۔
عالمی منڈی میں پیٹرول مزید سستا ہو گا، ہمارے ہاں نہیں ہو گا، البتہ اس کے نرخوں میں قومی مفاداتی اضافے کا سنگین امکان موجود رہے گا۔ بجلی سستی نہیں ہو گی۔ لوگ بجلی کے کنکشن کٹوا کر توانائی کی بچت کے حکومتی منصوبے میں تعاون کر سکتے ہیں۔
مہنگے موبائل فونوں کے نئے ماڈل آتے رہیں گے، اشراف زادے پہلے ہی دن انہیں خریدا کریں گے اور دکھایا کریں گے۔ ارذال زادے اپنے سستے اور پرانے موبائل چھپا لیا کریں گے۔ بھوکے ننگے بچے اسی طرح کئی ستاروں والے ریسٹورنٹس اور شادی گھروں کے باہر کوڑے کے ڈھیروں سے رزق ڈھونڈا کریں گے، کھلونوں کی دکانوں کے باہر حسبِ سابق ”ونڈو شاپنگ“ کرنے کی کوشش میں اور دکانوں کے چوکیدار انہیں بھگانے میں لگے رہیں گے۔ اشراف اسی طرح نئی نئی خفیہ اور اعلانیہ شادیاں کرتے رہیں گے، انگلینڈ، سپین، امریکہ اور آسٹریلیا جا کر ہنی مون مناتے رہیں گے۔ غریب زادے سہاگ رات کو لکڑیاں جلا کو سویا کریں گے اور پھر سوتے ہی رہ جائیں گے۔
عورتیں اسی طرح زندہ جلائی جاتی رہیں گی، کلہاڑوں سے ٹکڑے اور بندوقوں سے چھلنی ہوتی رہیں گی، ان کے چہروں پر تیزاب ڈالا جاتا رہے گا اور خواجہ سراﺅں پر برسنے والے اس موضوع پر غضِ نظر کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے۔ غریب زندہ درگور ہوتے رہیں گے اور فضاﺅں میں یہ نغمہ گونجتا رہے گا کہ ”غریب کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔“
________