قیام پاکستان کی بنیاد صرف چند جذباتی نعروں یا ہندو دشمنی پر نہیں رکھی گئی تھی۔ اصل میں پاکستان ایک نصب العین کا نام ہے مسلمانوں کی جداگانہ تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور بقا کا نام ہے۔ اگر پاکستان کے پس منظر کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی بنیاد اسلامی نظریہ قرار پاتا ہے۔ قائداعظمؒ نے اس حقیقت کی ترجمانی ان الفاظ میں کی۔ ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا‘ بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔
مسلمانان برصغیر مذہب‘ روایات عقائد‘ ثقافت‘ رسوم ورواج اور زبان کے لحاظ سے ہندوئوں سے جدا گانہ وجود اور شناخت رکھتے تھے اور قیام پاکستان کا بنیادی مقصد بھی مسلمانوں کے مذہب اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کی درج بالا بنیادی مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیابی حاصل کی ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آزادی‘ جاگیرداری کے چونچوں میں پلی اور جمہوریت آمریت کی گود میں پھلی اور پھولی‘ لہٰذا ایک ایسی منظم اور محب وطن قیادت جو بانی پاکستان کے افکار کی حقیقی معنوں میں ترجمان ہو یا جس کے پیش نظر قیام پاکستان کے مقاصد کا حصول ہو ایک خواب ہی رہا۔ انگریزوں کو خوش کرنے کیلئے (ن) لیگ کی حکومت نے گزشتوں سالوں میں پاکستانی بچوں کیلئے غیر ملکی انگریزی زبان کو لازمی قرار دیدیا۔ موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے یہ عندیہ تو دیا ہے کہ اگلے سال 2020ء میں مارچ سے پرائمری تک ذریعہ تعلیم اُردو کر دیا جائیگا۔ بہر حال اگر آپ اقوام عالم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کے ماہرین تعلیم پرائمری سطح پر کی غیر ملکی زبان کو پڑھنے کی سازش نہیں کرتے کیونکہ یہ سوچ ہی سراسر غیر تعلیمی‘ غیر منطقی اور غیر تعمیری ہے کیونکہ اس طرح نہ تو کسی قوم کی نظریاتی بنیاد قائم رہ سکتی ہے اور نہ اس کا اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے تعلق قائم رہ سکتا ہے۔ دنیا بھر کے تمام ممالک میں تعلیم ان کی اپنی ہی قومی زبانوں میں دی جاتی ہے۔ اگر کوئی انگریزی یا دوسری کوئی زبان سیکھنا چاہے تو اس کیلئے آزاد ملکوں میں تدریسی ادارے اور اکیڈمیاں ہیں جہاں ثانوی یا یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد طالب علم انگریزی وغیرہ سیکھ سکتے ہیں۔اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم نے یہ آواز کہ انگریزی پرائمری سے لازمی ہو مارچ1835ء میں لارڈ میکالے کی زبان سے سنی تھی۔ آج 184سال بعد ہم اپنے ملک میں انگریزی شروع سے لازمی کر کے اسکے الفاظ کی ترجمانی تو نہیں کر رہے؟اب ذرا بانی پاکستان کا وہ فرمان بھی ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے 21مارچ1948ء کو ڈھاکہ میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔’’میں آپ کو صاف طور پر بتا دوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہو گی اور کوئی دوسری نہیں۔ جو کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈالے وہ درحقیقت پاکستان کا دشمن ہے ایک سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو مضبوط بنیادوں پر متحد و یکجا رہ سکتی ہے اور نہ ہی (بحیثیت قوم) اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے بس جہاں تک سرکاری زبان کا تعلق ہے۔ پاکستان کی زبان اُردو ہو گی۔‘‘یہی نہیں بلکہ روح پاکستان قائداعظمؒ نے اپنے چودہ نکات میں مسلمانوں کے مذہب‘ تہذیب و ثقافت اور تعلیم کیساتھ ساتھ بطور خاص زبان کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ قائداعظمؒ کے چودہ نکات میں سے بارہواں یہ تھا۔ دو مسلمانوں کی ثقافت اور تعلیم‘ زبان و مذہب‘ مسلم قانون اور خیراتی اداروں کی ترقی اور حفاظت کیلئے تحفظات کا اہتمام کیا جائے۔ زبان سے قائداعظمؒ کی مراد یقیناً اُردو تھی۔ جس کا واضح ثبوت امن کے یہ الفاظ ہیں جو انہوں نے 24 مارچ1948ء کو قیام پاکستان کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے۔
’’اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو اسکی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اُردو اور صرف اُردو ہے‘‘ قائداعظمؒ کے زبان کے بارے انہی فرمودات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے آئین میں باقاعدہ اسکے نفاذ کی تاریخ کا بھی تعین کیا گیا۔ آئین پاکستان 1973ء آرٹیکل 1(251) میں واضح طور پر درج ہے کہ وہ پندرہ سال کے اندر قومی زبان اُردو کو نافذ کر دیا جائیگا‘‘ یعنی 1973ء کے آئین کے مطابق 14اگست1988ء تک انگریزی کی جگہ اُردو کو سرکاری زبان بن جانا چاہئے تھا۔ مگر مقررہ تاریخ کے بعد 31 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا گیا ۔ افسوس تو یہ ہے کہ سیاسی حکومتوں کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ جو آئین کے تحفظ کی دعویدار ہے اس نے اس طرح توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اُردو کے نفاذ کا حکم بھی جاری کیا مگر بعد کی اعلیٰ عدلیہ سمیت کسی بھی حکومت نے اس کی پیروی نہیں کی۔ یقین جانیے اگر قومی زبان اُردو کی حق تلفی کا آزالہ نہ کیا گیا تو ہم ہمیشہ کیلئے اپنی تہذیب و ثقافت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اس طرح ہمارے دشمنوں کے عزائم پورے ہو جائینگے۔ بقول ماہر القادری
اس ملک میں چاہے ہُن بر سے
اُردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38