یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ایک ماہ کے دوران لگ بھگ تینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دکھوں ماری عوام کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہو سکتی ہے کہ ہر گذرتے دن کے ساتھ ان کے لیے زندگی مشکل ہوتی جائے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب وزیراعظم تسلسل کے ساتھ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح بنانا چاہتے ہیں۔ کہیں احساس پروگرام ہے تو کہیں دستر خوان تو کہیں پناہ گاہوں کا منصوبہ ہے۔ کہیں حکومت بینظیر انکم سپورٹ کے بجٹ پر کام کر رہی ہے تو کہیں راشن کارڈز کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر غور رہا ہے۔ حکومتی اقدامات کو دیکھا جائے تو یہ سمجھ آتی ہے کہ ایک ہی طرح کے کئی منصوبے شروع کر دیے گئے ہیں لیکن کوئی بھی منصوبہ عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ ایک ہی طرح کے مختلف منصوبوں کا اجراء ناقص منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔
یوٹیلیٹی سٹورز پر مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں اس لیے بھی پریشان کن ہیں کہ اس وجہ سے عوامی فلاح کے دیگر منصوبوں کی افادیت ختم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ایک طرف ضرورت مندوں کو کھانا پہنچانے کا بندوبست ہو رہا ہے تو دوسری طرف یوٹیلیٹی سٹورز پر خریداری کے لیے آنے والی بڑی تعداد کی جیب پر مسلسل بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت یہ کیسے سمجھتی ہے کہ وہ ملک بھر میں مہنگائی پر قابو پا سکتی ہے۔ ان سٹورز پر قیمتوں میں اضافے سے مارکیٹ میں تیزی کا رجحان پیدا ہوتا ہے جب حکومت اپنے ہی سٹورز پر مہنگائی پر قابو نہ پا سکے تو مارکیٹ میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو بڑھنے سے کون روک سکے گا۔ کچن کے اخراجات میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ آٹے کی قیمت میں اضافہ متعلقہ محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کافی ہے۔ پانچ کلو آٹے کا تھیلہ تین سو تیس روپے کا ہو چکا ہے، چاولوں کی قیمتیں بھی اسی تناسب سے بڑھی ہیں۔ سبزیوں کی قیمتیں قابو سے باہر ہیں۔ جب حکومت یوٹیلیٹی سٹورز پر قیمتیں بڑھاتی چلی جائے تو مارکیٹ میں جاری کردہ نرخنامے بے معنی ہو جاتے ہیں اور انتظامیہ کے لیے ان نرخناموں پر عملدرآمد کروانا ممکن نہیں رہتا۔ یوں یہ سارا عمل ناصرف بے معنی ہو جاتا ہے بلکہ عوامی سطح پر ابہام بھی پیدا ہوتا ہے۔ حکومتی رٹ چیلنج ہوتی ہے اور ناجائز منافع خوری کو فروغ ملتا ہے۔ مصنوعی مہنگائی کرنے والے عناصر کو موقع ملتا ہے اور ضروریات زندگی کی اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے نکل جاتی ہیں۔ اس لیے یوٹیلیٹی سٹورز پر بڑھی ہوئی قیمتیں پورے ملک میں مہنگائی کا باعث بنتی ہیں۔
کیا یوٹیلیٹی سٹورز کو منافع کمانے کے لیے استعمال ہونا چاہیے یا عوام کی زندگی میں آسانی اور سہولت پیدا کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔ یہ ادارہ خالصتاً عوام کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہے اس میں منافع سے زیادہ عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا ہے۔ حکومت جیسے ان سٹورز کو چلا رہی ہے اس سے عوام کو ایک فیصد فائدہ نہیں ہو سکتا لیکن اس منصوبے کے نام ہر کئی لوگوں کو بہت فائدے مل رہے ہیں۔ عوام کے نام پر خواص کی خدمت ہو رہی ہے۔ ان سٹورز سے عوام کی حقیقی خدمت ہی سب سے بڑا منافع ہے۔ جب کہ وزیراعظم کو مشورے دینے والے ہر کام میں مالی فائدے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ریاست کو مالی فائدہ بھلے نہ ہو لیکن مشورے دینے والے یا ان کے ساتھیوں کو فائدہ ضرور ہوتا ہے۔
یوٹیلیٹی سٹورز کے ساتھ، صحت کارڈز، دستر خوان، پناہ گاہیں، احساس پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت عوامی فلاح کے تمام اداروں کو یکجا کر دینا چاہیے اس طرح یہ کام زیادہ بہتر انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کو ازاد خودمختار ادارہ بنایا جائے تاکہ عوام کی زندگی میں آسانی پیدا کی جا سکے۔
عوام کو ہر وقت دو وقت کی روٹی کے چکر میں لگائے رکھنے سے ان کا تشخص تباہ ہوتا ہے۔ انہیں جائز اور قابل عزت ذرائع سے اشیاء خوردونوش کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ایسا راستہ جہاں کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے وہ طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
خدارا عوام کو صدر ایوب کی باقیات سے بچایا جائے، انہیں وہ دور یاد نہ دلایا جائے، اسی طرح راشن کارڈوں کے کھیل سے بھی عوام کو بچایا جائے۔ دنیا آگے کی طرف سفر
کر رہی ہے اور ہم ریاست کو چالیس پچاس سال پرانے طریقوں کے مطابق چلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پیٹ بھرنے کے لیے عوام کو لائنوں میں لگنے سے بچائیں۔ جدید دنیا میں پاکستان کا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ یہ کسی بھی طور باشعور معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے۔ جو لوگ یہ مشورے دیتے ہیں انہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی سے نکل کر دوہزار بیس کے مطابق سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ دوہزار بیس میں حکومت کر رہے ہیں اور سوچنے کا انداز انیس سو ساٹھ اور ستر کا ہے۔ حکمرانوں کو آگے کا سوچنا چاہیے۔
عوام نے ووٹ عمران خان کو دیا ہے اب یہ ذمہ داری وزیراعظم کی ہے کہ وہ انہیں ایسے دور میں جب دنیا چاند کی طرف سفر کر رہی ہے عوام کو راشن کارڈ کے لیے لائنوں میں نہ لگائیں۔ عوام کی عزت نفس کا خیال کریں۔ کھانے کے نام پر عوام کی ضرورت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے مسائل کے دیرپا اور پائیدار حل کی طرف بڑھیں۔ ایک بات طے ہے کہ یہ سب مسائل اس سے بہتر انداز میں حل ہو سکتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ ہم اہلیت نہیں رکھتے، ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ کمی بہتر فیصلوں کی ہے فیصلہ جناب وزیراعظم آپ نے کرنا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38