ہم سیاستدان کی باتوں کو کالموں کا موضوع بناتے ہیں۔ کبھی صحافیوں کی بات بھی ہو جائے۔ مجھے گفتگو میں بھی عملی طور پر غیرسیاسی دوستوں کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ اچھے جملے اچھے مصرعوں کی طرح دل پر اثر کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں ٹاک شو میں وسیم بادامی نے سب صحافیوں کو بلا لیا۔ ان میں حامد میر، ڈاکٹر شاہد مسعود، عارف حمید بھٹی اور کچھ اور بھی نام والے لوگ تھے مگر مجھے ان کے نام بھول گئے، جنہیں ہم ان کے اپنے چینلز پر سنتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی طرح بات کی جس طرح وہ بات کرتے ہیں۔
NRO کی بات چل رہی تھی۔ آج کل تو سب پارٹیاں اس کے خلاف ہیں۔ پہلے NRO کے لیے سب اس کے حق میں تھے۔ یہ کیا تضاد ہے۔ یہ مفاد والا تضاد ہے۔
اب سیاستدانوں کی طرح سے NRO کا نام بھی لینا اچھانہیں ہے۔ کبھی عام آدمیوں کے لیے بھی NRO ہو۔
حامد میر نے کہا کہ جس طرح سیاستدانوں نے اے پی سی میں NRO نہ لانے کا مطالبہ کیا ہے وہ ٹھیک نہیں۔ پھر حامد میر کے اس جملے نے مجھے پکڑ لیا۔ ”نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔ ن لیگ کی آ گئی ہے۔“ اس جملے میں ساری کہانی بیان کر دی گئی ہے۔ ٹاک شوز کے اندر کچھ صحافیوںاور عملی طور پر غیرسیاسی لوگوں کو بلایا جائے انہیں سن کر مزا آ جاتا ہے۔ کبھی کبھی؟
اب صدر جنرل مشرف کو دیکھیں۔ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے بہت سادہ مگر تگڑے جملوں کے لیے کیا بات کی۔ ”بلاول پہلے مرد بن کر دکھائیں۔“ اس کے جواب میں جو بات میرے ذہن میں آئی ہے میں وہ بیان نہیں کر سکتا۔ عجیب سیاسی افراتفری ہے۔ کوئی پوچھے تو ہم بتا ہی نہیں سکتے کہ کیا ہو رہا ہے۔ پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کا ارادہ نواز شریف کا تھا مگر زرداری صاحب نے نواز شریف کی بات ہی نہ سنی۔ پہلے زرداری صاحب نے کہا تھا کہ ہم آپ کا ساتھ دیں گے مگر نواز شریف نے ہمیں دھوکہ دیا۔ ان کے مطابق ہم نے بہت ساتھ دے لیا مگر ہر دفعہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہوا۔
نواز شریف کے لیے ”ساتھ“ دینا یہ ہے کہ جب انہیں اس کی ضرورت ہو۔ نواز شریف کے لیے شاید یہی مناسب تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو بھاگنے کا موقع دیا ۔
نواز شریف بڑے مصروف ہیں ان کو پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کونسا کام اب پہلے کرنے والا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم ہاﺅس سے باہر آتے ہی کہا کہ شہباز شریف آئندہ وزیراعظم ہوں گے۔ ایک گفتگو میں بات عمران خان کے لیے مشاہداللہ خان نے شروع کی اور یہ جملہ بولا ”نواز شریف کے بغیر کوئی کھیل نہیں ہے۔“ وہ یہ تو بتائیں کہ اب کونسا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟
سیاستدانوں نے جو کھلواڑ پاکستان کے ساتھ شروع کیا ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ وہ کسی سے پوچھتے بھی نہیں کہ نتیجہ کہیں ان کی خواہش کے مطابق نہ آ جائے۔
ایسے میں ”صدر“ آصف زرداری اتنے مطمئن ہیں کہ داتا دربار پر جا کے حاضری دی۔ کم کم سیاستدان یہ کرتے ہیں۔ زرداری صاحب بی بی پاک دامن بھی گئے۔ لگتا ہے اب لاہور کا دورہ مکمل ہوا۔ وہ پہلے سیاسی میدان میں آئے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات ہوئی۔ میں اور برادرم سعید نیازی زرداری سے ملنے کے لیے بحریہ ٹاﺅن گئے۔ وہاں سنیٹر عبدالقیوم سومرو بھی تھے۔ اور مجھے وہ دن یاد آ گئے جب زرداری صاحب جیل میں تھے اور سومرو صاحب میرے گھر بھی آیا کرتے تھے۔ ہم اکھٹے زرداری صاحب کو کوٹ لکھپت جیل میں ملنے بھی گئے۔
زرداری صاحب بڑے خوشگوار موڈ میں تھے۔ خوب گپ شپ رہی۔ تب برادرم مرحوم جہانگیر بدر بھی تھے۔ بڑا مزا آیا۔ میرا اور بدر صاحب کا دوستانہ بڑا پرانا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں بھٹو کے عاشقوں میں سے تھا۔ زرداری صاحب نے ہر شخص سے حال احوال پوچھنے کا سلسلہ آخر تک جاری رکھا۔ سب لوگ ایک لیڈر کی طرح زرداری صاحب کو دیکھنے آئے تھے۔ زرداری صاحب نے ہر ایک کو خوش کر دیا۔ یہی لیڈر اور دوست کی نشانی ہوتی ہے۔ مجھے لگا کہ قیدی اور قائد ایک شخصیت میں جمع ہو گئے ہیں۔ وہ ایوان صدر میں ایسے ہی تھے جیسے یہاں تھے۔ ہمیں محسوس ہی نہ ہوا کہ ہم کسی سیاسی قیدی سے ملنے آئے ہیں۔ جو آدمی جیل میں اتنا خوش اور بھرپور طریقے سے رہ سکتا ہے اسے اپنے لوگوں کی نمائندگی کرنے کا حق ہے۔ ایوان اور میدان کا فرق مٹ گیا ہے۔ برادرم منظور وٹو کا اس حوالے سے بہت شکر گزار ہوں برادر قیوم سومرو اور قمرالزمان کائرہ کا بھی۔
٭٭٭٭٭