بھارتی مظالم کو عالمی سطح پرنقاب کرنے کیلئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے، فضل الرحمن
اسلام آباد(سلطان سکندر)پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر مین بڑھتے ہوئے مظالم اور کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی بھاری سازش کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کے لئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہ حریت کانفرنس کی یاداشت کو اپنی سفارشات کے ساتھ وزیراعظم پاکستان اور دےگر حکومتی ذمہ داران کو ارسال کریں گے، ان تجاویز او رمقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر غور کرنے کے لئے عنقریب پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے گا اور اس کے بعد آرپار کی کشمیری قیادت کی کشمیر کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کی جائے گی،وہ مشکل کے روز یہاں پارلیمنٹ ہاوس کے کمیٹی روم میں حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے دونوں گروپوں اور لبریشن فرنٹ یاسین ملک کے وفد سے بات چیت کررہے تھے حریت رہنماو¿ں غلام محمد صفی،میرطاہر مسعود،سید یوسف نسیم،فرنٹ کے ترجمان رفیق ڈار کی قیادت میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرکے مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال اور کشمیر پالیسی پر سوا گھنٹے تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کو تین صفحات اور پانچ نکات پر مشتمل یاداشت پیش کی غلام محمد صفی نے کہا کہ بھارتی مظالم اور مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر جارحانہ انداز میں اٹھایا جائے تاکہ عالمی برادری حالت کی سنگینی کا نوٹس لے،میرطاہر مسعود نے کہا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کےلئے 47میں پاکستان سے جانے والے ہندووں اور حالیہ چھ سات سال میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسسز میں ریٹائرڈ ہونے والے ہندو فوجیوں کو جموں و کشمیر میں آباد کردیا ہے اس صورتحال پر توجہ دی جائے۔یاداشت کے مطابق چھ ماہ قبل مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی غاصبانہ تسلط کے خلاف ایک اور آتش فشاں پھٹ پڑا اور عوام نے غیر معمولی قربانیاں دے کر ایک بار پھر عالمی ضمیر کوجگانے کی کوشش کی اسلئے کشمیر کے اہم فریق اور تحریک آزادی جموں و کشمیر کے پشتیاں کی حیثیت سے حکومت پاکستان سے توقع تھی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ان قربانیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرکے بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب اور ہمارے حق خودارادیت کے حصول کی راہ ہموار کرے گا مگر”اے آرزو کے خاک شدہ“ہم چند فرد گزاشتوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتے ہیں تاکہ تحریک آزادی کو کسی بڑے حادثے اور پاکستان کو عالمی سطح پر غفت اٹھانے سے بچایا جاسکے۔پاکستان کی طرف سے شروع کردہ سفارتی مہم تاخیر کا شکار ہوئی اور سوائے چند ایک کے وفود کا انتخاب بھی غیر معیاری تھا اگرچہ وفود کی تعداد کافی تھی لیکن کوائس نہ ہونے کے سبب کئی وفود بھات کے لئے کسی پریشانی کا باعث نہیں بنے۔جولائی 2016کی شہادتوں کے بعد مقبوضہ خطے میں حالات نے جو رخ اختےار کیا،توقع تھی کہ پاکستان اور آزاد خطہ کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا زبردست ردعمل سامنے آئے گا لیکن چشم فلک نے جو دکھ دیکھاوہ حیران کن بھی تھا اور پریشان کن بھی۔وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی .... جنرل اسمبلی میں تقریر مقبوضہ خطے کی صورتحال کے عین مطابق اور نجا طور پر منفرد تھی اس تقریر پر بھارتی ردعمل سے بھی یہ تاثر ملا کے خطاب میں جان تھی لیکن او آئی سی حتٰی کے رابطہ گروپ کے کسی ملک سے بھی تائیدی بیان کا نہ آنا بہت بڑا .... تھا۔یوں ایک اچھی کوشش ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے رسمی سالانے خطے کی حیثیت اختےار کرگئی ۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان افواج کی ریاستی دہشت گردی اورظلم و جبر سے گزشتہ مہینوں میں سینکڑون مردو زن بے رحمانہ طریقے سے شہید کئے گئے اور جارحانہ ہندوستانی فوجی مہم نے ڈیڑھ سو سے زائد کلی طورپر اور ایک ہزار سے زیادہ اشخاص کو جزوی طور پر بھارت سے محروم کردیا ہے،اس لئے پر جس طرح بھارت کو کشمیر میں کھڑا کرنے عالمی ضمیر اور انسانی حقوق کے اداروں کوغیرت دلانے کی ضرورت تھی جو نہیں ہوسکا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں پیدا شدہ انسانی المیہ کا تقاضا تھا کہ حکومت پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر ،انسانی حقوق کے منشور یا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے متعقل کونسل کے آئین اور پروٹوکول کی ضروری دفعات کو بروئے کار لاکر مختلف اداروں کو متحرک کرگئی مگر ایسا بھی نہیں ہوا،چھ مہینوں کی اس المناک صورتحال کا نیٹ ریزلٹ یہ ہے کہ قائدین قیدوبند کی صوبتیں برداشت کررہے ہیں نوجوانوں کو پبلک سینٹر ایکٹ کے تحت قید کیا جارہا ہے اور ہندوستانی ظلم و جبر کی چکی میں پسے عوام بے سروسامان کے عالم میں ہندوستان کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں کیا ان لوگوں کو بھارتی فوج یا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا جاسکتاہے۔؟پاکستان لہ اہل آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے ساتھ ساتھ اس انسانی ایسے کی طرف بھی دلائے ،مقبوضہ جموں وکشمیر عوام کی عالمی برادری تک براہ راست رسائی نہیں پاکستان ہی ایک ریاست ،اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک اور مسئلہ کشمیر کے ایک فریق کی حیثیت سے کشمیر کاز کی وکالت اور ترجمانی کا فریضہ انجام دیتا رہا ہے ہمار یقین کی حد تک احساس ہے کہ پاکستان اور جموں و کشمیر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے برحق کوائف پر ڈٹ کر مشاورت کا عمل جاری رکھیں تو اﷲ تعالٰی کمزوریوں کو قوت میں بدلنے کی صلاحیت سے ہمیں بھی نواز ے گا۔