آج پانامہ کیس کی سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت کا پہلا دن ہے لگ تو یہی رہا ہے کہ اس معاملے میں حکومت کسی قسم کی جلدی بازی کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی اور اپوزیشن کو بھی ماضی کی نسبت زیادہ جلدی نہیں ہے وہ بھی معاملات کو ’ٹھنڈا‘ کرنے کے کھانا چاہ رہی ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے میزبان کے گھر مہمان بن بلائے آجائے اور میزبان کی میزبانی کی نیت بھی نہ ہو تو ایک سادہ سی بات کو بھی جلیبی بنایا جا سکتا ہے بالکل اس میزبان کی طرح جس نے ایک بن بلائے مہمان سے پوچھا چائے پیئیں گے؟ مہمان نے کہا جی پی لیں گے میزبان نے کہا کپ میں یا گلاس میں مہمان نے کہا کپ میں میزبان نے کہا کپ پلاسٹک کا بھی ہے اور چائنا کلے کا بھی مہمان نے کہا چائنا کلے ٹھیک رہے گا میزبان نے کہا میڈ ان پاکستان ٹی کپ میں یا برٹش میڈ میں مہمان نے کہا برٹش چل جائیگا۔ میزبان نے کہا برٹش ٹی سیٹ بھی میرے پاس دو طرح کے ہیں سادہ بھی اور پھولدار بھی میزبان نے کہا پھولدار اچھا لگے گا۔ میزبان نے کہا بس جیسے ہی باورچی آتا ہے میں چائے بنواتا ہوں مہمان نے کہا مجھے بھی جانے کی کوئی جلدی نہیں! شائد حکمران جماعت بھی پی ٹی آئی کو پانامہ کپ میں ایسی ہی چائے پیش کرنا چاہ رہی ہے جس میں دیر بھی لگے تو دونوں فریقین کو کوئی حرج نہیں تادم تحریر عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ’’نئے‘‘ ثبوتوں کیساتھ سپریم کورٹ کے نئے بنچ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں پانامہ کیس کی سماعت ریٹائر ہونیوالے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کر رہا تھا، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نیا بنچ تشکیل دیا گیا ہے اور یہ بنچ کیس کی ازسر نو سماعت کررہا ہے اس نئے بنچ کی خاص بات یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد اپنے پہلے حکم میں پاناما کیس کی سماعت کیلئے نیا پانچ رکنی لارجر بنچ تشکیل دیا جس میں وہ خود شامل نہیں بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کررہے ہیں بنچ میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی جگہ جسٹس اعجاز افضل شامل ہوئے ہیں جبکہ جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالحسن بھی بنچ کا حصہ ہیں۔
میرے خیال میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے نئے بنچ کی تشکیل ایک احسن فیصلہ ہے جو ملکی تاریخ کے ایک ایسے دوراہے پر کیا گیا ہے جب پانامہ کیس کے شور جنوں نے ملکی سیاست میں قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس نے بنچ کی سربراہی نہ کر نے کا دانشمندانہ اور فاضلانہ فیصلہ کرکے بہت سی ممکنہ قیاس آرائیوں اور خیال آفرینیوں کا راستہ روک دیا ہے کیونکہ پانامہ کیس کی حساسیت کا عالم ہمہ جہتی امیدوں سے جڑا ہوا ہے اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کا محور اس نقطہ پر ہے کہ پاناما کیس بھی ایک طرح کا پولیٹیکل گیم چینجر مقدمہ ہے جس سے جمہوریت کرپشن کی دلدل سے نکل کر شفاف حکمرانی کی نوید دے سکے گی، عوام بھی اس کیس کے فیصلہ کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں، چنانچہ اپوزیشن جماعتوں نے اسے حکومت کیخلاف اپنی سیاسی جنگ کا فیصلہ کن موڑ قرار دیا ہے جہاں عدالت عظمیٰ کیلئے بھی پاناما کیس ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ بہت مدتوں کے بعد ملکی عدلیہ ایک ہائی پروفائل کیس کی ازسرنو سماعت کرنے جا رہی ہے، تمناؤں کے اشہب دوراں بے قابو ہیں تاہم من پسند فیصلوں کی امید باندھنے والوں کو شفافیت اور عدالتی فیئر پلے کی یقین دہانی سے ایک صائب و مثبت پیغام ملا ہے اور وہ یہ ہے کہ عدلیہ ہمیشہ قانون اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر فیصلہ سناتی ہے اور کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتی، یا کسی کی خواہش یا دباؤ میں آکر کبھی فیصلے جاری نہیں کرتی۔
لیکن مجھے یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں جس طرح اعلیٰ عدلیہ پر پانامہ کیس کو لیکر انگلیاں اُٹھائی گئیں اس سے ادارے کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ہمیشہ ملک دشمن قوتیں ایسی باتوں کو فروغ دیتی آئی ہیں کہ ملک میں عوامی اداروں کا آپس میں ٹکرائو پیدا ہو اور ملک غیر مستحکم ہو جائے اسی وجہ سے اور اسی تناظر میں نئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی نامزدگی کے موقع پر لاہور ہائی کورٹ کی سلور جوبلی تقریبات کے اختتامی اجتماع سے خطاب کے دوران کچھ چشم کشا باتیں کہیں تھیں ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں میں کوئی مفاد آڑے نہیں آئیگا ہماری شفافیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھے گی، دباؤ کی باتیں قیاس آرائیاں ہیں جبکہ تمام عدلیہ اور انکے ججز کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ مصلحت، جھول اورخوف کا شکار ہوئے بغیر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائیگا ان کا کہنا تھا کہ جج کا دیانتدار ہونا ضروری ہے جنہیں تحمل اور سنجیدگی سے فریقین کو سن کر انصاف فراہم کرنا چاہیے، انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ اگر ہم نے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیے تو آئندہ نسلوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑیگا۔
جسٹس ثاقب نثار کی اہلیت و قابلیت کے بارے میں کون نہیں جانتا یقیناً انہوں نے اس بنچ کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے خو دکو اس بنچ سے الگ کر کے ایک احسن فیصلہ کیا ہے لیکن قوم سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ چیف جسٹس ’’سپروژن‘‘ کا اختیار اپنے پاس رکھیں کیونکہ قوم اس کیس سے مثبت نتائج کی توقع رکھ رہی ہے اور اس کیس کو رول ماڈل بنا کر انصاف کے ایسے نظام کی توقع رکھنا چاہتی ہے جس میں پاکستان میں عام شہری سے لیکر صدر تک کسی شخص کو کسی قسم کا کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہونا چاہیے عدالت اور قانون کے سامنے ہر شخص جواب دہ ہو تاہم عدالت صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ کیلئے خصوصی بنچ تشکیل دے دے اور یہ بنچ ان اعلیٰ عہدیداروں کے معاملات کو تین دن کے اندر نبٹا دے تاکہ ملک کی مقتدر ہستیوں کا وقت ضائع نہ ہو اور عدلیہ بھی یہ فیصلہ کرلے کہ یہ کسی آمر کو کسی بھی صورت میں قانونی اور آئینی تحفظ نہیں دیگی اور اگر کسی جج پر جانبداری، کرپشن یا غیر قانونی مراعات کا الزام ثابت ہوگیا تو اس جج کو عبرت کا نشان بنادیا جائے تاکہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہوسکے۔
آج پانامہ کیس قوم کے اعصاب پر سوار ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے پانامہ لیکس سامنے آنے پر کہا تھا کہ یہ معاملہ قدرت کی طرف سے سامنے آیا ہے جس سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا مگر یہ معاملہ الجھایا جا رہا ہے۔ اس لئے قوم کی نئی خواہشات نئے چیف جسٹس کے ساتھ ہیں تاکہ ملک میں انصاف کا ادارہ مضبوط رہے۔ہم بدقسمتی سے ملک میں فوری، سستے، بے لچک اور مساویانہ انصاف کا کوئی نظام وضع نہیں کر سکے لیکن پانامہ کیس سے جڑی عوام کی اُمیدوں کو پروان چڑھانے میں بلاتاخیر انصاف ہونا چاہیے تاکہ حکمران اور حزب اختلاف اس گھن چکر سے باہر نکل کر عوام کی ترقی کے بارے میں بھی سوچیں!!!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38