کچھ جاوید ہاشمی کے بارے میں
سینئر سیاستدان اور جھوٹ میں عالمی شہرت یافتہ جناب جاوید ہاشمی صاحب کو من گھڑت جھوٹ آہستہ آہستہ یاد آ رہے ہیں. تین سال کے عرصے کے بعد انکو خیال آیا کے دھرنے کے مقاصد کیا تھے. جاوید ہاشمی کی مثال ایک غیر معروف فلمی اداکارہ کی ہے جو سستی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے ناموں پر جھوٹے الزامات لگا کر خبروں میں جگہ بناتی ہے اور اسے عوام میں عزت یا بے عزتی کی پروا نہیں ہوتی بلکےوہ ان رہنا چاہتی ہے. جاوید ہاشمی صاحب بھی سیاست کے ایسے ہی دور سے گزر رہے ہیں. مجھے یاد ہے وہ شام جب مزار قائد کراچی میں 25 دسمبر 2011کو تحریک انصاف کا لاکھوں پر مبنی جلسہ جس دن جاوید ہاشمی نے عمران خان کو جوائن کیا تو عوام نے ہاشمی کو بے حد عزت سے نوازا. میں مائیک پر ہاشمی صاحب کو خوشامدید کہ رہا تھا توو لوگوں کا والہانہ استقبال قابل ستائش تھا. مگر یہ عزت ہاشمی کو راس نہ آئی اور جب تحریک انصاف سے اپنا راستہ جدا کیا تو وہ ہی باغی عوام میں داغی کہلانے لگا۔ 2013کے الیکشن میں ہاشمی صاحب نے جہاں ملتان سے الیکشن لڑا وہاں ہی اسلام آباد کے حلقے میں بھی زبردستی انٹری ماری. آخری دن جب الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کا ٹائم بڑھایا تو ہاشمی صاحب بھاگے بھاگے سیکٹر ایف ایٹ پہنچے اور سب کو حیران کر دیا اور اپنے پپرز جمع کروا دیے. اس حلقے سے مجھے ٹکٹ مل چکا تھا. باوجود عمران خان کے سمجھانے کے ہاشمی صاحب اپنی زد پر قائم رہے اور اپنے پچھلے دعوے جس میں انھوں نے نوجوانوں کی خاطر دستبرداری کا وعدہ کیا تھا اس سے پلٹ گے. پارلیمانی بورڈ کے ایک اجلاس میں جب ان سے اس ناجائز قبضہ چھڑ انے کی التجا کی گی تو کرسی سے اٹھ کھڑے ہو? اور شور شرابہ مچا دیا. ان کی حالت دیکھ کر ہوٹل انتظامیہ نے ایمبولینس کو الرٹ کر دیا تھا. تھوڑی دیر بعد دوبارہ کرسی پر بیٹھ گے خوف یہ تھا کے کہیں یہ کرسی بھی نہ چلی جائے وہ پارٹی کے صدر ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے اور اسی حیثیت کو دھمکی کے طور پر بھی استمال کرتے رہے. عمران خان کے کہنے پر میں نے اسلام آباد حلقے پر ناجائز قبضہ چھوڑنے کی درخواست کیا کر دی ہاشمی صاحب زارو قطار رونے لگے. کہا تمھارے لئے سو حلقے قربان. میں نے کہا سو نہیں میں تو ایک کی بات کر رہا ہوں وہ بے میرا اپنا حلقہ. روتے روتے ہاشمی صاحب نے کہا اگر میں نے اسلام آباد سے الیکشن نہ لڑا تو میں اسمبلی میں نہیں جا پاو¿ں گا کیوں کے ملتان میں میرا جیتنا مشکل ہے. کیا آپ چاہتے ہیں کے پارٹی کا صدر پارلیمنٹ میں نہ جا?. یہ بات کرتے کرتے ہاشمی صاحب ایک بار پھر خوب روے اورپارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی. میں پارٹی کی ساکھ اور سر پر عام انتخابات کی وجہ سے خاموش رہا. عوام نے عمران خان کی وجہ سے ہاشمی کو کافی عزت دی اور ملتان اور اسلام آباد سے کامیاب کروایا. اسلام آباد میں ووٹ ڈالنے والوں کی بڑی تعداد کو امیدوار کا نہیں پتا تھا اور ووٹ صرف عمران خان کے نام پر کاسٹ ھوے. ملتان میں اسی جاوید ہاشمی کو جب دھرنے کے دنوں میں ضمنی انتخابات ھوے تو ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور فتح تحریک انصاف کی ہوئی. اس وقت جاوید ہاشمی تحریک انصاف چھوڑ چکے تھے اور مسلم لیگ نون سے سپورٹ لینے کے باوجود اپنے ہی حلقے سے رسوائی کمائی. کنٹینر کی ایک شام جب ہم پارلیمنٹ کے سامنے جا کر احتجاج کرنے لگے تو پوری پارٹی متفق تھی مگر ہاشمی صاحب نون کی ہدایات لیتے رہے اور مجے کہا کے آپ مائکروفون پر آگے نہ جانے کا اعلان کر دیں. میں نے کہا ایسا فیصلہ تو نہیں ہوا. شیخ رشید صاحب نے مزایہہ انداز میں کہا کے بابا ڈر گیا ہے اگر عمران خان نے اگلے پانچ منٹ میں تقریر نہ کی تو خدا کی قسم میں کنٹینر سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لوں گا. اسی دوران جب یہ باتیں ہو رہی تھیں تو جاوید ہاشمی اور عمران خان کے بیچ بحث جاری تھی اور تھوڑی دیر میں ہاشمی صاحب وہاں سے روانہ ہو گے. اور عمران خان نے اپنی تقریر میں پارلیمنٹ کے باھر احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا. ہاشمی صاحب اپنے اس فیصلے پر کافی عرصہ پچھتاتے رہے اور پارٹی میں واپس آنے کی کوشش کرتے رہے مگر شاہد بہت دیر ہو چکی تھی. ہاشمی صاحب کی سیاست میں جگہ بنانا مشکل ہو رہا ہے اور وہ اپنی اہمیت زندہ رکھنے کے لئے فلمی اداکارہ بنے ھوے ہیں. لیکن عوام انکی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتی اور شاہد وہ خود بھی ایک اچھے ڈاکٹر کی تلاش میں ہیں. ڈاکٹر نون نے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استمال کیا جس کا نقصان نہ صرف ہاشمی صاحب کو ہوا بلکے اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر نون کو بھی مریض کر گیا۔