فراموشی کانوحہ
مہذب معاشرے میں ،اس با ت کابہت خیال رکھا جاتاہے کہ تہذیب سے وابستہ افرادکوکبھی فراموش نہ کیاجائے۔یہی وجہ ہے ،مغرب میں وہ تمام ہنرمند،جن کاتعلق فنون لطیفہ سے ہے،ان کو زندگی بھر عزت اورتوجہ ملتی ہے۔مداحوں کی طرف سے بھی ستائش کا سلسلہ جاری رہتاہے اورحکومتیں بھی اپنے فنکاروں کاخیال رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔وہاں قلم کار ایک کتاب لکھ کے اپنی زندگی کماسکتاہے۔مصورکی ایک پینٹنگ اس کی سفید پوشی کابھرم رکھ سکتی ہے۔کسی اداکارکے لیے،ایک کامیاب فلم سے دال روٹی چلتے رہنے کابندوبست ہوجاتاہے۔یہ سب کچھ حکومتوں کی ذمے داری نہیں ہوتی،اس میں عوام بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں نہ توحکومتیں ذمے داری قبول کرتی ہیں اورنہ ہی عوام اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کوتیار ہیں۔ہمارے ہاں اس مجموعی صورتحال کے پیچھے دووجوہات نظر آتی ہیں۔پہلی وجہ تو اجتماعی ہے اوردوسری انفرادی۔پہلی وجہ کے مطابق ،اجتماعی طورپر ہم سب نرگسیت کاشکارہیں،ہر شخص اپنے آپ کوحرف آخر سمجھتاہے،عاجزی صرف ایک علامتی بات ہے،عملی طور پر یہ رویہ،ہماری زندگیوں سے خارج ہوچکا۔آپ کسی عاجز پرست سے ذرا چھیڑ چھاڑ کریں ،پھر دیکھیں ،اس کی نرگسیت کیسے منہ پھاڑ کر،عاجزی کے لبادے سے باہر آئے گی،مزید آسان لفظوں میں کہاجائے،توہم میں سے اکثریت اجتماعی طورمیں جھوٹ بولتی ہے،ایک دوسرے سے اوراپنے آپ سے بھی۔دوسری وجہ کامحرک حسد جیسامنفی جذبہ ہے۔یہ احساس برتری اور کمتری دونوں سے پیداہوتاہے۔اس کے دامن میں اعتراف کرنے کے دوبول نہیں ،مگر اعتراض کرنے کی ہزار وجوہات ہیں۔انسانی تعلقات میں جب ،نرگسیت اور حسد جیسے جذبے ،باہم ہوجائیں توپھربندہ اپنے اردگردسے غافل ہوجاتاہے،صرف اپنے نفع نقصان کی فکر ہوتی ہے،دوسرے کے درد کامحسوس نہیں ہوتا۔مغرب کو لاکھ گالیاں دے لیں،مگر انہوں نے اپنے ہاں ایسا نظام تشکیل دیاہے،جس میں محبوب اورہمدرد ملے یا نہ ملے ،مسیحا ضرور مل جاتاہے۔پاکستان میں جب کسی معروف شخصیت کا انتقال ہوجاتاہے،تو اس کی توصیف میں زمین آسمان ایک کردیاجاتاہے،وہی شخص کچھ دنوں پہلے تک اسی سماج کا حصہ تھا،مگر کسی نے اس سے با ت کرنے کی خواہش تک نہیں کی ہوتی ،حسد ایک منہ زور رویہ ہے،منائے نہیں مانتا۔میں دوستوں سے ہمیشہ کہتاہوں،کام میں حسد کرو،کوئی اچھا کام کررہاہے،توحسد میں تم اس سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کرو،اس طرح شاید کوئی بات بن جائے۔کوئی تنقید کرتاہے،تواپنے کام سے جواب دو،باتیں کرنے سے صرف چائے کی پیالی میں طوفان تو آسکتاہے، حقیقی زندگی میںنہیں۔آخری فیصلہ کام پر ہوتاہے،نہ کہ زبانی جمع خرچ پر،لیکن ہمارے ہاں،وہ نرگسیت ہی کیا،جس میں اپنے سوا کوئی دکھائی دے اوروہ حسد کس کام کا،جس میں کام کرنا پڑے۔گزشتہ دنوںایک معروف ،خاتون کالم نویس نے اپنے کالم میں ،پاکستان کی ایک معروف ادیبہ،الطاف فاطمہ کاذکر کیا۔تحریر پڑھ کرخوشی ہوئی کہ خال خال ہی سہی،ابھی تک احساس کی یہ رمق زندہ ہے۔یہ بہت عمدہ بات ہے ،لیکن الطاف فاطمہ اکیلی شخصیت نہیں ،ان جیسی کئی اور نادرشخصیات ،تنہائی کے جوکھم اٹھارہی ہیں،ان کو نہ حکومت پوچھتی ہے اورنہ ہی کوئی کالم نویس ۔اردو فکشن کاایک اہم نام ڈاکٹرانورسجاد ہیں،کئی مہینوں سے ،لاہور شہر سے باہر رائے ونڈ کے قریب کسی نواحی علاقے میں اپنی زندگی کے آخری دن کاٹ رہے ہیں،انتہائی علیل ہیں، کراچی میں وہ ایک طویل عرصے تک قیام پذیر رہے،ایک ہجوم ان سے تعلق داری کادم بھرتاتھا،مگر اب منظرنامہ ویران ہے۔مجھے خوشی ہوئی ، مستنصر حسین تارڑ نے ان کاتذکرہ کیااورڈاکٹر تبسم کاشمیری کے ہمراہ ،ان کی عیادت کو بھی گئے۔سرائیکی زبان کے معروف شاعر شاکرشجاع آبادی کوبڑھاپے میں علاج معالجہ کے لیے کس قدر مصائب برداشت کرنا پڑرہے ہیں،سب جانتے ہیں۔ایک معروف صحافی جنہیں سرائیکی شعروادب میں بہت دلچسپی ہے،ہمیں توقع تھی،وہ ان کے حوالے سے کچھ لکھیں گے،مگر وہ کفر ٹوٹانہیں خدا خداکرکے بھی۔ایسے کئی اورنام ہیں،جن پر فراموشی کاموسم طول پکڑگیاہے۔کراچی کے معروف اداکار اکبرسبحانی (معین اختر کے ساتھ ،روزی ڈرامے میں یادگارکردارنبھایاتھا)علالت کے باعث خاصے کمزور ہوگئے ہیں،ان کی گزر بسر کیسے ہورہی ہے،شوبز کی چکاچوند والے نووارد کیاجانیں۔لاہور میں اداکارہ،روحی بانوکی بے سروسامانی سے کون واقف نہیں،مگر میڈیا والے بھی اپنی خبر اورمارننگ شوکرنے کے بعد انہیں بھول گئے،وہ نہ توحقوق نسواں کا شور مچانے والی کسی تنظیم کو یاد آئیں اورنہ ہی کسی این جی اوکو،سرکار کی تو خیر کیا بات کیاجائے،وہ تو سرکار ہے۔جمیل فخری اپنے بیٹے کی موت کاغم لیے اس دنیا سے چلے گئے۔ماضی کی مقبول ترین اداکارہ اورہیررانجھا فلم میں ”ہیر“کاکردار نبھانے والی ”فردوس“زندہ تو ہیں ،مگر کس حال میں ہیں،کوئی نہیں جانتا۔پاکستان کے شاندار مترجم”شاہد حمید“علیل ہیں،کسی کوبھی یاد نہیں ،انہوں نے پاکستان میں سب سے پہلے دوستوووسکی،ٹالسٹائی،جوسٹن،گارڈر، جین آسٹن اورارنسٹ ہمنگوے جیسے عالمی ادیبوں کواردوزبان کے قارئین سے اپنے شاندار تراجم کے ذریعے متعارف کروایا،اورکس کس کانام لیاجائے۔آئے دن کسی نہ کسی فنکار کے ابترحالات،صحت کے مسائل ،معاشی تنگی کی خبریں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہیں ،مگرہم اور ہمارامعاشرہ ،ان پر توجہ مرکوز کرنے کو آمادہ نہیں۔فنکاروں اور ادیبوں کے لیے بنائے گئے سرکاری اداروں کی کیا بات کی جائے،وہاں تو کرسیوں کی ”میراتھن ریس“ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ حالات نرگسیت اورحسد کی آگ میں جھلسے ہوئے لمحے ہیں۔فراموشی اور بے حسی کانوحہ ہیں۔ایسے میں نئے سال کی ابتداکہاں سے کریں۔اس ماحول میں تہذیب کی بات ،فنون لطیفہ کا تذکرہ ،غیرجمالیاتی حرکت لگتی ہے،مگر کیا کیجیے ،درد حد سے بڑھ جائے ،پھرچیخ وپکار توکی جاسکتی ہے ۔