امن کا داعی امریکہ اسلحے کی دوڑ میں سب سے آگے
نو منتخب امریکی صدرٹرمپ کا یہ بیان پڑھ کر امریکہ میں ناگفتہ بہ معاشی حالات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ”شہری امریکی ساختہ اشیاءکا استعمال کریں‘ نوکریاں میں دوں گا“ خبرپڑھ کردو سال پرانا واقعہ یاد آیا جب کراچی سے خانیوال بذریعہ ٹرین سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ کینٹ اسٹیشن کراچی پر اپنے کزن اعجازا حمد کے ساتھ پہنچا‘ کراچی ایکسپریس پر سیٹیں بک ہوئیں تھیں‘ ٹرین پلیٹ فارم پر لگی ہوئی تھی۔ گاڑی بوگیاں دیکھ کر ششدر رہ گئے‘ بالکل نئی ٹرین تھی‘ بوگیوں کے باہر کراچی‘ لاہور کی الیکٹرونک شیلڈز کی بجائے امریکی شہر سان فرانسسکو‘ ٹیکساس کی نصب کردہ شیلڈ چمک رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ بوگیاں امریکہ سے درآمد کی گئی ہیں‘ لیکن استفسار کرنے پربات کھلی کہ یہ بوگیاں ا مریکہ سے درآمد نہیں کی گئیں بلکہ چین نے امریکہ کے لئے بنائی ہیں‘ امریکہ برآمد کی جانی تھیں کہ حکومت پاکستان کی ضرورت اور آرڈر پر پاکستان بھیجنامقصود ہوا۔ نئی بوگیوں کا اندازہ یوںبھی لگایا جاسکتا تھا کہ بوگیوں کے واٹر ٹینک بھرے ہونے کے باوجود پانی استعمال نہ کیا جاسکا۔ گارڈ سے پانی نہ ہونے کی شکایت کی تو انہوں نے کہاکہ ان کے واٹر ٹینک بھرے ہوئے ہیں لیکن ان میں جو سسٹم یا موٹرز نصب کی گئی ہیں وہ پاکستان میں قابل استعمال نہیں۔ واللہ علم‘ شکایت نوٹ کرلی ہے لاہور جا کر میں آلٹریشن کے بعدان بوگیوں میںپانی قابل استعمال ہوسکے گا۔
گویا ا مریکہ میں ٹرینیں تو چلتی ہیں لیکن ان کی بوگیاں اورروز مرہ اشیاءو ہ دیگرممالک سے درآمدکرتا ہے‘ دیگرممالک سے افرادی قوت ‘ صنعت اور قرعہ اندازی اندازمیںہائر کرتاہے۔ خود امریکی شہری کیا کرتے ہیں جو بھی کرتے ہیں بہر حال عزائم دنیا پر حکمرانی کرنے کارکھتے ہیں۔ بالخصوص پسماندہ اور غریب طبقے میں امدادی اور فلاحی سرگرمیوں کی آڑ میں ہمدردیاں سمیٹتے ہیں اور ان پر براہ راست نہ سہی بالواسطہ کسی نہ کسی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن از خود امریکہ کا کیا بزنس ہے‘ امریکی تاجر کیا کرتے ہیں‘ وہ چین اور دیگر ممالک کی طرح سوئیاں‘ کھلونے‘ پیپر پنز‘ استریاں نہیں بناتے‘ ان کے ہاں کاریں‘ موٹر سائیکل نہیں بنتے‘ سچ بوچھیں تو وہاں پر بھی ”سب چائنا“ ہے‘ جیسے ہمارے ملک میں ”سب چائنا ہے“ کی صدائیں سننے کوملتی ہیں‘ لیکن حیرت انگیز طور امریکہ کسی سے کم نہیں۔ وہ واقعی سپر پاور ہے جو کہ پوری دنیا کا80 فیصد اسلحہ بناتا ہے۔ وہ کپڑے‘ جوتے برآمد نہیں کرتا بلکہ ٹیکنالوجی سے لیس میزائل‘ ٹینک ‘ طیارے برآمد کرتاہے۔ گویا امریکہ کا کاروبار اسلحہ سازی ہے‘ دنیا کے بیشترممالک کی دفاعی ضروریات کوپوراکرتاہے۔
امریکہ امن کا داعی ہے‘ وہ پوری دنیا میں امن کاخواہاں ہے‘ اس کے باوجود اسلحہ بنانے میں سب سے آگے ہے‘ حیران کن امریہ ہے کہ امریکہ ایک بار پھرہتھیاروں کی فروخت میں پہلے نمبرپرآگیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اوبامہ حکومت نے 2016ءمیں اسلحہ کی فروخت کے 43 کھرب 20 ارب روپے مالیت کے معاہدوںپردستخط کئے ہیں۔ اسی طرح ا سلحے کی فروخت میں دوسرا نمبر فرانس کاہے‘ جس نے 16 کھرب 20 ارب روپے روپے مالیت کا اسلحہ فروخت کیا‘ اس اسلحہ کے خریدار ترقی یافتہ ممالک نہیں بلکہ پسماندہ اورترقی پذیر ممالک ہیں۔ گزشتہ برس اسلامی ملک قطر نے 18 کھرب 36ا رب مالیت ا سلحہ کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کرکے سرفہرست رہا ہے۔ اسی طرح اسلامی ملک مصرنے 12 کھرب 96 ارب اور سعودی عرب نے 8 کھرب 64 ارب ر وپے مالیت کاا سلحہ خریدا اور یہی اسلحہ عموماً مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہورہا ہے۔ مسلمان مسلمان کاقتل کررہاہے‘ یہ بالواسطہ طورپر امت مسلمہ کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ افغانستان ‘ عراق‘ شام‘ فلسطین‘ ترکی‘ پاکستان‘ برما و دیگرممالک کو اسلحہ فراہم کرنے والے ہی ترقی یافتہ ممالک ہیں جو کہ آج خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
بیشتر اسلامی ممالک مشرق وسطیٰ اور ایشیائی ممالک پر کسی نہ کسی طورپر امریکہ مسلط ہے اور ان ممالک کے وسائل پرقابض ہے۔ ”ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اورکے“ مصداق ایک جانب سپرپاور ممالک دنیا میں امن کے داعی ہیں لیکن دوسری جانب امریکی پالیسیوں کے زیرعتاب ان ممالک کو قرضوں کی صورت میں کمزور کردیا ہے۔ انہیں کسی نہ کسی طورپر جکڑ رکھا ہے جو کہ امت مسلمہ سمیت پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لئے المیہ ہے۔ دنیا میںایٹمی اسلحہ کی دوڑ اپنی جگہ ہیں بارک اوبامہ رخصت ہوگئے اور اب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میدان میں ہیں‘ لیکن امریکی پالیسیاں جاری رہیں گی۔ اگر چہ ٹرمپ نے دنیا میں امن و امان کا پیغام دیا ہے‘ لیکن پیرو کے نجومیوں نے پیش گوئی کی ہے نئے امریکی صدر ٹرمپ کی وجہ سے اس سال جنگوں میں مزید بہتری آئےگی جبکہ ان نجومیوں نے سال 2016ءمیں جو پیش گوئیاں کی تھیں وہ تقریباً سچ ثابت ہوئیں۔ نجومیوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے ا مریکہ اور اسرائیل کااتحاد مزید بہتر ہوگا جو کہ فلسطین اورشام‘ عراق کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مسلم ممالک خطے میں امن و امان کے حوالے سے کیا کرداراداکرتے ہیں‘ آنے والے حالات بتائیں گے۔