جب شرک کا بازار صبح و شام گمراہی کے گماشتوں میں اضافہ کا سبب تھا۔ لوگ توہم پرستی اور بد عقیدگی کی دلدل میں سر تا پائوں ڈوب چکے تھے وہ ظلمت کی شب طاری تھی کہ جس میں اجالا کوئی نہ تھا… تیرگی نے ناصرف فلک کی روشنی کو زمین پر اترنے سے روک رکھا تھا بلکہ اس تیرگی کے راج سے قلوب انسانی بھی بیمار و مردہ ہو چکے تھے۔پھر خالق کائنات نے انسانوں پر رحم فرمایا اور احسان عظیم فرماتے ہوئے انہیں اس تیرگی سے نکالنے کے لئے نور کا اہتمام فرمایا:
اوربا لاخراتنی ظلمت و گمراہی کے بعد 12ربیع الاول کی ایک سحر نے زمانے کی تیرگی کا سینہ چاک کرتے ہوئے تمام کائنات میں رنگ و نور کی بارش کر دی آج سردار مکہ کے بیٹے عبداللہؓ اور آمنہ بی بیؑ کے گھر کائنات کے تاجدار کی ولادت ہو گئی ہے۔ جس کے سبب شیطان اپنے سر پر مٹی ڈالتا پھر رہا ہے… اور آج اس کے شیطانی وفود جو کل تک جوق در جوق آسمان فلک تک آسمانی خبریں سننے کے لئے بے دھڑک چلے جایا کرتے تھے۔ آج شہاب ثاقب کے سبب اپنے جلے ہوئے جسموں کے ساتھ حیران و پریشان یہاں سے وہاں سراسیمگی کی حالت میں دوڑتے نظر آ رہے ہیں۔ اور ان کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ یہ کس کی آمد ہوئی ہے…؟ جس کی وجہ سے ان کی آنکھوں کی بصارت زائل ہونے لگی ہے۔ قوت پرواز مدہم پڑ گئی ہے… اور فرشتے انہیں اپنے نورانی کوڑوں کی مدد سے آسمان فلک تک آنے سے روک رہے ہیں…؟
محبوب خداﷺ کی آمد نے صرف قبائل عرب کی زندگیوں پر ہی اثرات مرتب نہیں فرمائے تھے۔ بلکہ آپ کی مدد کی برکت کا فیض رفتہ رفتہ تمام اقوام عالم کو مستفید فرمانے لگا۔ آپ کی صداقت، امانت، حسن اخلاق، ایثار اور آپ کی خوبصورت گفتگو نے ان جہلائے عرب کی زندگیوں میں عجیب انقلاب برپا کر دیا تھا وہ اب ضرورت کے لئے خدا تراشنے کے بجائے ایک واحد معبود کی رضا کی جستجو میں مستغرق تھے۔
آپ کی دعوت کو قبول کرنے والے مردان عرب کی زندگیاں یکسر تبدیل ہو چکی تھیں۔ جنہیں دیکھ دیکھ کر اقوام عالم بھی تجسس کے عالم میں اسلامی تعلیمات سے آگاہی کی خواہش مند تھی۔ کیونکہ تفرقوں میں بٹے ہوئے عرب قبائل ناصرف ایک جسم کی مانند ہو چکے تھے بلکہ اب وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو بھی محسوس کرنے لگے تھے۔ عورت کو پائوں کی جوتی اور صرف بستر کی زینت سمجھنے والے اب بنت حوا کی عظمت تسلیم کرنے لگے تھے۔ بلکہ جنت کا رستہ (ماں کی صورت) اسی عورت کے تلوے سے تلاش کیا جانے لگا تھا اور بیٹی کو زحمت کے بجائے رحمت کا لقب مل چکا تھا… بیوی کو دین میں مددگار سمجھا جانے لگا۔ اب جھگڑوں کے بجاثے ایثار سے کام لیا جانے لگا تھا۔
غربا کی بات تو چھوڑئیے زرخرید غلاموں کو بھی نسب کے بجائے نسبت کی وجہ سے یا سیدی کہہ کر پکارا جانے لگا تھا… رسول عربیؐ کی تعلیمات نے امیر و غریب کا فرق مٹا دیا تھا۔ اب کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت نہیں تھی۔ کسی امیر کو کسی غریب کی عزت اچھالنے کی اجازت نہیں تھی۔ کوئی سردار ہونے کے باعث عزت دار نہیں تھا۔ اور نہ ہی کوئی غریب ہونے کی وجہ سے کمتر تھا۔ لوگوں میں بڑائی کا معیار علم، تقوی اور پرہیز گاری کی وجہ سے تھا۔ کریم آقاؐ کی تعلیمات کے سبب باشندگان عرب کی زندگی میں جو انقلاب برپا ہوا۔ اس سے تمام عالم نا صرف متاثر ہو رہا تھا بلکہ وہ سب بھی اس کے اثرات سے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے لئے متمنی تھے۔ بس خطرہ تھا اس نظام سے تو صرف ان لوگوں کو تھا جنہوں نے بادشاہ بن کر اپنے وجود کو از خود خدا کے منصب پر فائز کر رکھا تھا اور مخلوق خدا سے اپنی نیاز مندی اور پرستش کے خواہاں تھے۔ محترم قارئین کرام دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ، پیارے مصطفےؐ اور خلفائے راشدینؓ کی تعلیمات کی روشنی میں۔ کیا یہی سبق موجود نہیں ہے۔ کہ ہر ایک مسلمان کی عزت دوسرے مسلمان پر فرض ہے…؟ لیکن کیا ہم دوسرے مسلمانوں کی تکریم کرتے ہیں؟ اور کریم آقاؐ نے تو ہمیں ٹولیوں اور گروہوں سے نکال کر ایک قوم بنا دیا تھا۔ لیکن کیا ہم پھر سے بکھر بکھر کر ٹولیوں کی صورت اختیار نہیں کرتے جا رہے…؟ کیا عید میلاد النبیؐ کا دن ہمیں یہ سبق نہیں دے رہا۔ کہ خدا عزوجل اور میٹھے مصطفےؐ کے نام پر پھر سے ایک ہو جائو اور رسول محترمؐ کے اختیارات ماپنے کے بجائے ان کے نام پر نثار ہو جائو، تاکہ کل حشر میں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38