صدر ممنون حسین نے کہا ہے حکومت کشکول توڑنے کی پوزیشن میں نہیں عوام کو صبر کرنا ہوگا لفظ ’’ کشکول‘‘ بھیک مانگنے کیلئے استعمال ہوتا ہے کشکول لیکر پھرنے والوں کو دریوزہ گر، فقیر یا گداگر کہتے ہیںبھیک اللہ کے نام پر مانگی جاتی ہے جبکہ قرضہ مانگنا ایک مختلف بات ہے ملک کا قرضہ ساڑھے 14 ہزار روپے سے تجاوز کرگیا ہے کیا اتنی بھارت رقم بھیک میں ملی ہے اگر بھیک ملی ہے تو پھر حکومت بھیک کی رقم واپس سود کے ساتھ لوٹانے کی پابند نہیں پھر قرضوں کے لئے کشکول کا لفظ کیونکر استعمال کیاجاتا ہے کیا بینکوں سے قرض لینے والے کشکول لئے پھر رہے ہیںوزیراعظم نوازشریف کی قرضہ سکیم کو بھی کشکول کا نام دیاجائے گا صدر کو یہ کہناچاہئے تھا کہ حکومت کا قرضہ لئے بغیر گزارہ نہیں اور عوام کو یہ نہیں بتایا کہ وہ کس بات پر صبر کریں اپنی غربت بے بسی بے چارگی بے ہمتی کس بات پر صبر کریں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پر صبر کریں لاقانونیت فرقہ واریت دہشت گردی مہنگائی اور حکمرانوں کی عوام سے دوری پر صبر کریں ہمارے ہاں تو صبر کی تلقین اسے کی جاتی ہے جس کا کوئی کھو گیا ہو کوئی پیارا ہمیشہ کیلئے بچھڑ گیا ہو صدر نے یہ بھی کہا 15 روپے فی یونٹ بجلی خرید کر 9روپے میں کب تک دیں گے وہ یہ بھی تو بتائے کہ آخر وہ کونسی مجبوری ہے کہ بجلی 15 روپے یونٹ کے حساب سے خریدنی پڑی رہی ہے مہنگا مال خرید کر گھاٹے میں بیچنا کس کی مجبوری ہے پرویز مشرف کا ٹرائل ہوسکتا ہے تو پھر گراں فروشوں کا ٹرائل کرنے سے حکومت کو کونسا خوف باز رکھتا ہے۔ صدر ممنون حسین نے قرضوں کا حکم ساڑھے چودہ ہزار ارب بتایا اگلے روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حجم بڑھا کر 15 ہزار ارب کردیا جون تک مزید ایک ارب ڈالر قرض لیں گے وزیر خزانہ سات ماہ سے یہی کہتے آرہے ہیں آئی ایم ایف سے قرضہ ملک کی عزت بچانے کیلئے لیا پاکستان کو ڈیفالٹر ہونے سے بچا لیا گردشی قرضے پھر215 ارب ہوگئے ہیں 5 ماہ میں 206 ارب کے نوٹ چھاپے ہیں اشیاء کی پیداوار طلب سے کم ہونا اور صرف نوٹ چھاپتے جانا ہی افراطِ زر کہلاتا ہے آلو انڈے ٹماٹر بازار میں طلب سے کم ہونگے اور خریدار پیسے لئے کھڑے ہونگے و اشیاء کے نرخ خود بخود بڑھ جائیںگے آبادی بڑھتی جارہی ہے تیل بجلی گیس کی رسد طلب سے بہت کم ہے اسی لئے ہر طرف مہنگائی کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے منافع خوری کی بھی کوئی حد نہیں رہی صارفین کو افراط زر اور منافع خوری مل کر ڈس رہے ہیں معیشت کے باب میں ہمایوں کی طرف نظر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں دہلی میں عام آدمی پارٹی نے اقتدار سنبھالتے ہی یکم جنوری سے دہلی کے ہر خاندان کو 20ہزار لٹر ماہانہ پانی بلا معاوضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا ساتھ ہی 400 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے ہر صارفین کیلئے بجلی کی قیمت بھی آدھی کردینے کا اعلان کیا گیا کیا یہ اقدامات ان پارٹیوں کیلئے سبق نہیں جو بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آتی ہیں ہمارے ہاں پڑھے لکھے لڑکے لڑکیوں میں بے روزگاری آسمان سے باتیں کر رہی ہے لاکھوں بچے بچیاں NTS ٹیسٹ دینے کے باوجود معمولی نوکری بھی حاصل نہیں کر پا رہے۔
2014ء میں ہماری حالت بہتر تو نہیں ابتر ہوتی دکھائی دیتی ہے ن لیگ کی حکومت کو کل 7ماہ ہوجائیں گے ہماری معیشت کا نگران آئی ایم ایف ہے سٹیٹ بنک اور آئی ایم ایف دونوں سہ ماہی رپورٹیں شائع کرتے ہیں پہلی سہ ماہی رپورٹ میں تسلی بخش کے ریمارکس لکھے گئے گزشتہ 30 سال کی آئی ایم ایف رپورٹوں کے ریمارکس سے اکنامک منیجرز تو خوش ہوتے ہوں گے لیکن عام آدمی کو تو سستی روٹی تک میسر نہ آسکی خیرات زکوۃ صدقات کی روٹیاں کھانے والوںکی قطاریں لمبی ہوتی جارہی ہیں بیمار اور بیماریوں میں اضافہ حیرت انگیز ہے نجی تعلیمی اداروں میں فیسیں ہزاروں میں نہیں لاکھوں روپوں میں لی جارہی ہیں قرضہ معافی تو ہوسکتی ہے لیکن فیس معافی کا Concept ختم ہوچکا ہے تعلیم بھی ایک جنس ہے جس کی قیمت چائے یا بسکٹ کے ڈبے پر لکھی قیمت سے کم میں دستیاب نہیں ہوسکتی ہر گھر میں بے روزگاری اور بیماری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024