کالاباغ ڈیم سندھ طاس معاہدے کا ایک بہت ہی اہم حصہ ہے لیکن سیاسی مفادات ہمیشہ غالب آتے رہے باوجود اِس کے کہ پاکستان میں نو ملین ہیکٹر زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے بیکار پڑی ہے جبکہ کالاباغ ڈیم کی سائٹ سے ہر سال اتنا پانی گزرتا اور سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے جس سے کالاباغ جیسا ایک تو کیا دو ڈیم بھرے جاسکتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت تین صوبے کررہے ہیں لیکن کالاباغ ڈیم بن جانے کے بعد سب سے زیادہ فائدہ ان ہی صوبوں کو ہوگا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کالاباغ ڈیم بننے کے بعد پنجاب کی 19لاکھ ایکڑ، سندھ کی 23لاکھ ایکڑ، بلوچستان کی 10لاکھ ایکڑ اور خیبر پختونخوا کی 8لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کیا جاسکے گا جس سے اندازاً صوبہ سندھ کو سالانہ 4.6ارب ڈالر، پنجاب کو 3.8ارب ڈالر، خیبرپختونخوا کو 1.6ارب ڈالر اور بلوچستان کو 2ارب ڈالر کا معاشی فائدہ ہوگا۔ کالاباغ ڈیم بننے کے بعد سندھ اور خیبرپختونخواہ کے بہت سے علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں گے جس سے جان و مال کے بے تحاشا نقصان سے بچا جاسکے گا۔ مزید برآں کالاباغ ڈیم میں ذخیرہ ہونے والے 7ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے 2.6ملین ایکڑ فٹ پانی سندھ کے حصے میں آئے گا جو وہاں پانی کی قلت کے شکار زرعی علاقوں میں آبپاشی کیلئے استعمال ہوسکے گا۔ کالاباغ ڈیم سے بلوچستان بھی بھرپور مستفید ہوگا کیونکہ ڈیرہ بگتی، ڈیرہ مراد جمالی، جعفر آباد اور سبّی کے علاقوں کو وافر پانی ملے گا۔ جہاں تک خیبر پختونخواہ کا تعلق ہے تو کالاباغ ڈیم کی مدد سے 8لاکھ ایکڑ زمین کو زیرِکاشت لایا جاسکے گا جو دریائے سندھ کی سطح سے 100سے 150 فٹ بلند ہے۔یہ زمین صرف اُسی صورت میں زیر کاشت لائی جاسکتی ہے جب دریا کی سطح بلند ہو اور یہ کام صرف کالاباغ ڈیم کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس کامتبادل ذریعہ دریا کے پانی کو پمپ کرکے اوپر پہنچانا ہے جس پر پانچ ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ لاگت آئے گی جبکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد نہر کے ذریعے پانی ملنے سے یہ لاگت صرف 400 روپے فی ایکڑ سالانہ رہ جائے گی۔ اکثر و بیشتر بھاشا ڈیم کا شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن اس کے حقائق کیا ہیں یہ کبھی بیان نہیں کیے گئے۔ اگر کالاباغ ڈیم چھوڑ کر بھاشا اور دوسرے کئی ڈیم بنا لیے جاتے ہیں تو بھی خیبرپختونخواہ کے پانچ شہروں ڈیرہ اسمعیل خان، ٹانک، بنوں، لکی مروت اور کرک کے زرعی شعبے کو پانی کی قلت کا سامنا ہوگا کیونکہ ٹیکنیکل طور پر ان شہروں کو صرف کالاباغ ڈیم کے ذریعے ہی پانی مہیا کیا جاسکتا ہے۔ کالاباغ ڈیم پاکستان کو توانائی کے بحران سے ہمیشہ کے چھٹکارا بھی دلا سکتا ہے کیونکہ اس سے سالانہ 3600میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جس کی ابتدائی طور لاگت صرف 2.50 روپے فی یونٹ ہوگی جبکہ 5سال بعد جب یہ ڈیم اپنی لاگت خود ہی پوری کرلے گا تو بجلی صرف 1روپے فی یونٹ کی لاگت پر پیدا ہوگی جبکہ اس وقت ملک میں بجلی کا ایک بڑا حصہ تھرمل ذرائع سے 19روپے فی یونٹ سے زائد کی لاگت پر پیدا کیا جارہا ہے جو توانائی کے بحران اور سرکلر ڈیبٹ کی بہت بڑی وجہ ہے۔ کالاباغ ڈیم بننے کے بعد صرف بجلی کی پیداواری لاگت کی مد میں ملک کو4ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہوگی ۔پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے، اُن حالات میں بھاشا ڈیم کی تعمیر ناممکن ہے کیونکہ اس کی تعمیر کے لیے 12ارب ڈالر سے زائد اور 10سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ ہمارے پاس پیسہ نہیں جبکہ بھاشا ڈیم کے لیے کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ تقریباً 12ارب ڈالر کا سرمایہ فراہم کرنے کو تیار نہیں اور یہ صرف واحد مسئلہ نہیں کیونکہ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے پیدا ہونے والے دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے مزید کئی ارب ڈالر درکار ہونگے۔ 1998ء میں ساری دنیا کا دبائو یکسر نظر انداز کرکے وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرکے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کا سر فخر سے بلند کیا تھا۔ اگر وہ کالاباغ ڈیم تعمیر کرکے ایک "آبی دھماکہ" کردیں تو نہ صرف آنے والی نسلیں بھی اُن کی مشکور رہیں گی بلکہ تاریخ بھی اُن کا ذکر ہمیشہ سنہرے حروف میں کرے گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024