4 جنوری مولانا محمد علی جوہر کا یوم وفات ہے۔ مولانا محمد علی جوہر 10 دسمبر 1878ء کو ریاست رام پور کے ایک خوشحال اور مہذب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد عین جوانی میں فوت ہوئے۔ اس وقت جوہر کی عمر پونے دو سال تھی اور آپ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ والدہ کی تربیت اور بڑے بھائی شوکت علی کی نگرانی نے آپ کی شخصیت کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ والدہ اور بھائی کو آپ سے بے پناہ امیدیں تھیں اور آپ نے بھی پڑھائی اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں اپنے آپ کو خوب منوایا اور گھر والوں کی امیدوں پر پورا اترے۔ انہوں نے 14 جنوری 1911ء کو ہفتہ وار اخبار ’’کامریڈ‘‘ شائع کیا اور اپنے ادارئیے میں کہا کہ ہم سب کے کامریڈ (ساتھی) ہیں اور ہماری دلی آرزو ہے کہ ہندوستان کے سیاسی نظام کے مختلف اجزا میں بہتر تعلقات پیدا ہوں۔ کامریڈ نے بہت کم عرصے میں خواص و عام میں مقبولیت حاصل کر لی۔ وہ انگریزی حکومت کے اعلیٰ افسران میں بھی مقبول و معروف ہو گئے۔ یکم جون 1913ء کو ’’روزنامہ ہمدرد‘‘ جاری کیا تاکہ بے شمار ملتوں، مذہبی فرقوں اور گروہوں کے لوگوں میں صحافت کے ذریعے سے اتحاد پیدا کیا جائے اور پھر آزادی کی منزل کی جانب سفر اختیار کیا جائے۔ مولانا نے صحافت جیسے مشن کے لئے پے در پے مالی نقصانات برداشت کئے، صحت و تندرستی گنوائی، قید و بند کی صعوبتیں سہی لیکن اپنے پائے استقلال میں لرزش نہ آنے دی۔ آپ کا مقصد ایک الگ وطن کا حصول تھا اس کے لئے ایک طرف تو آپ نے ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں کیں اور دوسری طرف آزادی وطن کی جدوجہد کو حکومت عثمانیہ کی بقا کی تحریک سے جوڑ دیا۔ برطانوی سامراج نے آنے والے خطرات کو بھانپ کر آپ کو نظربندی، جلاوطنی اور قید کی سزائیں دیں۔ آپ نے اپنی عمر عزیز کے انتہائی قیمتی سات سال قید و بند میں گزارے۔ آپ ہندوستان کے مقبول ترین عوامی لیڈر تھے۔ تحریک خلافت اور تریک موالات، تاریخ آزادی کے دو اہم باب ہیں اور یہ محمد علی جوہر کے بغیر نامکمل دکھائی دیتے ہیں۔ آپ مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے اور قائداعظم کو مسلم لیگ میں شمولیت پر آمادہ کرنے والے بھی آپ تھے۔ 1930ء میں لندن میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس میں آپ بھی قائداعظم کے ساتھ تھے۔ جہاں تقریر کرتے ہوئے آپ نے یہ تاریخی جملہ کہا جو ایک سچی پیش گوئی ثابت ہوا۔ آپ نے شیر کی طرح گرجتے ہوئے کہا:
’’آج جس مقصد کے لئے میں یہاں آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنے وطن کو صرف اس صورت میں واپس جانا چاہتا ہوں کہ ارمغان آزادی میرے ہاتھ میں ہو ورنہ میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جائوں گا اور اس کے بجائے ایک غیر ملک میں مرنا پسند کروں گا۔ بشرط یہ کہ وہ ایک آزاد ملک ہو۔ پس اگر ہندوستان میں تم ہمیں آزادی نہ دو گے تو یہاں مرنے کے لئے قبر تو تمہیں دینی ہی پڑے گی۔‘‘
کچھ دن بعد لندن ہی میں یکم جنوری کو ڈاکٹروں کے مشورے کے برخلاف برطانیہ کے وزیراعظم کو طویل خط لکھا دماغ پر زور پڑنے سے دماغ کی رگیں پھٹ گئیں اور 4 جنوری 1931ء بمطابق 15 شعبان 1350ھ کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024