یوم حق خود ارادیت پس منظر و پیش منظر
غلام نبی بھٹ
1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر جس میں اس وقت گلگت و بلتستان اور لداخ بھی شامل تھے کو پاکستان میں شامل ہونا تھا کیونکہ مذہبی تہذیبی ثقافتی علاقائی جغرافیائی تعلق اور زمینی و آبی راستوں سے یہ ریاست پاکستان سے قدرتی طور پر جڑی ہوئی تھی مگر مہاراجہ کشمیر نے پس و پیش سے کام لیا تو ریاست کے مسلمانوں نے بغاوت کر دی جس کے ڈر سے مہاراجہ جموں بھاگ نکلا۔ اس وقت تک کشمیریوں کی مدد کے لئے پاکستان قبائلی لشکر آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ اور گلگت و بلتستان کے مسلمان اپنا علاقہ آزاد کرا چکے تھے اور مجاہدین سرینگر کے قریب پہنچ گئے تو مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا اور بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہو گئی جس پر دونوں نوزائیدہ ممالک کے درمیان حالات سخت کشیدہ ہو گئے۔ بدقسمتی سے اس وقت کے پاکستانی آرمی چیف جنرل گریسی نے قائداعظم کے حکم کے باوجود کشمیر میں فوجی کارروائی کا حکم ماننے کی بجائے پاکستان و بھارت کے مشترکہ سپریم کمانڈر کو دہلی سے پاکستان بلوایا جس نے قائداعظم کو دونوں ممالک میں جنگ کی صورت میں پاکستان کی مشکلات، پریشانیوں اور نقصانات سے آگاہ کیا اور قائل کر لیا کہ فوج کشی سے پرہیز کیا جائے۔ اس کے باوجود جب قائد نے یہ مسئلہ کابینہ میں پیش کیا تو کابینہ نے بھی مخالفت کر دی جس پر گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد کو بھی منظوری دینی پڑی۔ اس صورتحال میں قائد کشمیر چودھری غلام عباس کو یہ کہنا پڑا کہ
’’مسئلہ کشمیر حل ہو گیا‘‘
یکم جنوری 1948ء کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کے مشورے کے بعد پیش کیا تاکہ ریاست جموں کشمیر میں رائے شماری کروا کے وہاں کے باشندوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔
یہ قرارداد پیش کرنے کا مقصد بھارت کی طرف سے غیرقانونی طور پر کشمیر کے مہاراجہ کی طرف سے الحاق کو منظور کرنے اور کشمیر میں اپنی افواج کی موجودگی پر عالمی ضمیر کو گمراہ کرنا تھا۔ اور اس میں وہ کامیاب رہا۔ پاکستان کی طرف سے اس قرارداد پر بحث کے لئے سر ظفراللہ خان اور بھارت کی طرف سے سوامی پال آہنگر اور شیخ عبداللہ سلامتی کونسل میں پیش ہوئے۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی بار اس مسئلہ کے حل کے لئے عالمی برادری کوشاں رہی۔ 1949ء میں دونوں ممالک نے باہمی رضامندی سے اس قرارداد کو مفصل اور جامع شکل دی۔ مگر 1956ء تک 133مرتبہ بحث کے بعد بھی یہ بات واضح ہو گئی کہ بھارت ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود عالمی برادری اس تنازعہ کے حل کے لئے کوشاں تھی۔ بعد ازاں جب پاکستان کا سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں میں شرکت کر کے امریکی لابی آ گیا تو پہلی مرتبہ 1962ء میں آئرلینڈ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے قرارداد پیش کی گئی تو روس نے اسے ویٹو کر دیا۔ بعد ازاں 1965ء اور 1971ء کی جنگ کے بعد طویل عرصہ بیت گیا تو بھارت نے ان قراردادوں کو متروکہ قرار دینا اور میں نہ مانوں والی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کشمیر میں اپنا قبضہ مستحکم کر لیا۔ 1990ء سے آج تک تحریک آزادی کشمیر کی جدید مسلح جدوجہد کے باعث ایک مرتبہ پھر یہ مسئلہ عالمی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا مگر بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اس مرتبہ بھی اس کے جامع حل کے لئے کوئی یکساں پالیسی اپنانے میں کامیاب نظر نہیں آ رہی۔ کئی مرتبہ تحریک آزادی کی شدت نے اسے سنہری مواقع فراہم کئے جب کشمیریوں کو بھی اپنی آزادی کا جلد یقین ہو گیا مگر نادیدہ قوتوں نے یہ سنہری مواقع بھی ضائع کر دیے۔ اس سلسلے کا آخری موقع 2010ء میں آیا تھا جب پورے سال مقبوضہ وادی ہڑتال کے سبب قبرستان بنی ہوئی تھی اور لاکھوں کشمیری روزانہ سڑکوں پر مظاہرے کر رہے تھے۔ مگر ہماری سست روی اور بھارت کی تیز رفتاری کی وجہ سے یہ تحریک بھی مسلح تحریک کی بجائے اب عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اور بھارت کشمیریوں کو قبرستان پہنچا چکا ہے۔ ہزاروں کو بیدخل کر دیا جو آزاد کشمیر کے مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے ایسا کون سا معجزہ ہوتا ہے یا حکومت پاکستان کون سی ایسی پالیسی اختیار کرتی ہے جس سے کشمیر کی آزادی کی منزل قریب آئے او ربھارت کشمیر میں رائے شماری کرائے۔ ہماری حکومتیں تو بھارت سے تجارت اور پسندید ملک قرار دینے کے چکروں میں پڑ کر کشمیر کو کشمیر کمیٹی کی شکل دے کر مولانا فضل الرحمن کے سپرد کر چکی ہے۔