دیوار کشمیر کی تعمیر
راجہ شہزاد معظم
قارئین محترم! بھارت ڈنکے کی چوٹ پر دیوار کشمیر تعمیر کر رہا ہے۔ہم سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم پاکستان بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے خواہاں ہیں۔ وہ بیک ڈور ڈپلومیسی اور مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ جب کہ بھارت ،اسرائیل کی طرز پر دیوار کی تعمیر میں مصروف کار ہے۔ دال میں کچھ کالا کالا ہے۔ خطرات کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ ان گھنٹیوں کی آواز میرے کانوں تک تو بالکل واضح سنائی دے رہی ہیں۔ پتہ نہیں آپ بھی اس طرح کے سائرن سن پا رہے ہیں یا نہیں۔ میں سوتے میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا ہوں ،اور محسوس ہوتا ہے کہ اس پار کے کشمیریوں کو کوئی ہم سے دور بہت دور لے جا رہا ہے۔کیا آپ بھی ایسا محسوس کرتے ہیں؟مجھے ڈرائونے ڈرائونے خواب آ رہے ہیں ،کہ کوئی کشمیر کو دو لخت کرنا چاہتا ہے۔ اقصائے چن تو صدر ایوب نے چین کو تحفہ دے کر پتہ نہیں کون سی خارجہ پالیسی بنائی تھی۔ پھر گلگت ،بلتستان کے متنازعہ خطے کو ایک انتظامی ڈھانچہ بنا دیا گیا۔ اب صرف مقبوضہ کشمیر باقی بچتا ہے۔جس کے بارے میں ہر قدم پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
ہم کیسی قوم ہیں ؟ ہماری بقاء مسئلہ کشمیر میں مضمر ہے۔ لیکن اس پر بیک ڈور ڈپلومیسی کی سمجھ نہیں آتی۔ بھارت روز اول سے اکھنڈ ہندوستان کے نعرے پر عمل پیرا ہے اور ہم جب بھی کشمیر ایشو کی بات ہوتی ہے تو کھسیانی بلی والا کردار ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے فخر ہے بھارت کے صدر اور ایٹمی سائنسدان عبدالکلام آزاد پر جو اتنے محب وطن ہیں کہ ہندوستان کے لئے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ہم کیسے لوگ ہیں۔ ہمارا ہر حکمران نہ جانے کیوں بھارت سے خوف زدہ نظر آتا ہے۔ ہمارے کشمیری بھائی جو وہاں پر الحاق پاکستان کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں وہ ہمارے رویے سے کس قدر دل برداشتہ ہوتے ہوں گے۔ وہاں خون و قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے اور ہم بیک ڈور ڈپلومیسی کر رہے ہیں۔کیا کبھی بھارت نے بھی کشمیر پر بیک ڈور ڈپلومیسی کی۔
یاد رکھئے گا کہ ایک دن اگر ہمارا یہی طرز عمل رہا تو بھارت خاکم بدہن اس حصے کا بھی مالک بن جائے گا اور ہم اپنے آقائوں کو خوش کرتے کرتے اس کشمیر کے ٹکڑے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ گزشتہ دنوں میری نظر سے اطہر مسعود صاحب کا کالم گزرا جس میں انہوں نے آزاد کشمیر کے لا جواب لوگ کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ مجھے بتائیں یہ لا جواب لوگ بغیر ڈیفنس اور حکمرانوں کی اخلاقی سپیرٹ کے کس طرح اپنا کردار ادا کریں؟ ہم کس کے آگے جا کہ فریاد کریں؟ پاکستان ہے یا بھارت یا پھر امریکہ۔ چھوٹا منہ بڑی بات ہو جاتی ہے لیکن کیا کروں جب ہم نے عملی طور پر امریکہ کا غلام ہی رہنا ہے تو ہم کیوں نہ اسے ہی اس خطے کا مالک بنا دیں۔ کم از کم کرپشن، اقرباء پروری اور بد نیتی کا تو خاتمہ ہو گا۔
حضرت اقبال نے ستر سال قبل کہا تھا کہ؎
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ہم کب تک جرم ضعیفی میں مبتلا رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر پر کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب کر کے اس کا سہہ فریقی حل نکالا جائے۔ ورنہ یہ کوئی بچوں کا کھیل ہے نہیں کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تنازع چلا آ رہا ہے اور ہم بلی کو دیکھ کر جس طرح کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے وہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ آج کشمیری قوم کو نہ تو اپنے پوچھتے ہیں اور نہ عالمی برادری بھارت کی ۸ لاکھ فوج کے ظلم وستم کا نوٹس لے رہی ہے۔
قارئین محترم! میں نے قبل از وقت جو محسوس کیااس سے آپ کو آگاہ کر دیا۔ اب شائد میں غلط بھی ہوں۔لیکن یاد رکھئے گا کہ خطرات ہمارے جنت نظیر کے ارد گرد منڈلا رہے ہیں۔ ایران بھی شائد اب ایک اور دھچکے کا منتظر ہے۔ میرے منہ میں خاک لیکن جو حالات و واقعات کی کڑیاں آپس میں مل رہی ہیں، اس کا حتمی نتیجہ تقسیم کشمیر پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ مجھے شدید کرب کے ساتھ تحریر کرنا پڑ رہا ہے ،کہ خاکم بدہن کشمیر کی وکالت میں پہلے جیسا جوش باقی نہیں رہا ہے اور ہندو بنیا میری اور آپ کی جنت پر قبضے کی آخری کوشش کر رہا ہے۔ خدا نہ کرے دیوار برہمن کی طرز پر دیوار کشمیر تعمیر ہو جائے۔