ملکی تاریخ بھٹو کی سیاست کو فراموش نہیں کر سکتی
فرزانہ چودھری
غلام مصطفٰی کھر پاکستان کی سیاسی تاریخ نمایاں باب ہیں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جوڑی نے پاکستان کی سیاست میں خوب رنگ جمایا۔ ان کو پنجاب کا شیر کہا گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست غلام مصطفٰی کھر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی ۔ موقع محل سے فائدہ اٹھانا اور ماحول کی ہوشیاری سے اپنے حق میں ڈھال لینا ان کا طرہ امتیاز ہے۔ سیاست کی گتھیاں سلجھانے کے ماہر ہیں ۔بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا سیاسی باپ مانتا ہوں انہوں نے میری انگلی پکڑ کر مجھے سیاست کی الف ب سکھائی ۔ میں نے خوش لباسی ان کو دیکھ کر اپنائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں غریب کے لئے حقیقی محبت تھی وہ اپنے ہر کارکن کو اسکے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے ہم غریب عوام کی بدولت اقتدار میں بیٹھے ہیں ہمیں اس جگہ پر نہ بیرونی طاقت‘ نہ فوج اور نہ ہی بیورو کریسی نے پہنچایا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور قائداعظم محمد علی جناح جیسے لوگ روز پیدا نہیں ہوتے۔ ایسے بیٹے مائیں کبھی کبھی پیدا کرتی ہیں۔‘‘
غلام مصطفیٰ کھر نے بتایا‘ میری اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربت بہت زیادہ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے تین کوششیںکی گئیں جس میں دو کُو فوج نے کئے مگر وہ پکڑے گئے پھر ان کو اسمبلی میں ہٹانے کی کوشش کی گئی مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔ پھر فیصلہ یہ ہوا کہ بھٹو کہ ہٹانا ہے تو پہلے غلام مصطفیٰ کھر کو راستے سے ہٹانا ہوگا کیونکہ جب تک ذوالفقار علی بھٹو اور غلام مصطفیٰ کھر اکٹھے ہیں اس وقت تک ان کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ بھٹو تک پہنچنے کے لئے پہلے مجھے گورنر کے عہدے ہٹایا گیااور پھر وہ ہاتھ بھٹو تک پہنچے اگر میں گورنر رہتا تو بھٹو تک کوئی ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی تاریخ کے سنہری اور نمایاں باب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ملکی تاریخ بھٹو کی سیاست کو فراموش نہیں کر سکتی۔ آنے والی نسلیں بھی ان کی سیاسی بصیرت سے قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک ذہین سیاستدان اور لیڈر تھے۔ ہر سال جب بھی ان کی سالگرہ یا شہادت کا دن آتا ہے تو ان کے ساتھ گزرے لمحے ایک فلم کی مانند دماغ میں چلنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر بھٹو صاحب میرے مشورے پر عمل کرتے تو شایدآج زندہ ہوتے۔ جب77ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر جنرل ضیاالحق نے قبضہ کیا تو اُسی صبح ساڑھے تین بجے ذوالفقار علی بھٹو کا مجھے فوج آیا۔ بھٹو نے مجھے کہا مصطفٰی کھر تم سچے تھے فوج آگئی ہے۔ اتنے میں ایک میجر دروازہ توڑ کر کمرے میں آ گیا اور اس نے آتے ہی میرے ہاتھ سے فون چھینا اور تار کھینچ کر توڑ دی۔ میں نے ذوالفقار علی بھٹو سے اُسی رات کہا تھا کہ سر مجھے لگتا ہے کہ فوج ٹیک اوور کرے گی۔ خیر اس میجر نے کہا کھر صاحب اگر آپ بھٹو صاحب کے ساتھ نہ ہوتے تو آج آپ لیڈر ہوتے، وزیراعظم ہوتے۔ میں نے کہا تم مجھے یہ بتائو تم مجھے مارنے آئے ہو یا گرفتار کرنے اور کُو کس نے کیا ہے؟ میجر نے کہا کُو جنرل ضیاالحق نے کیا ہے۔ مجھے گرفتار کرنے کے بعد فوجی بیرک میں لے گئے۔ وہاں ساری دنیا بیٹھی تھی۔ جنرل ٹکا خان،غلام مصطفٰی جتوئی، حفیظ پیرزادہ، حامد رضا گیلانی اور پتہ نہیں کون کون تھا۔ مجھے کوئی خوف نہیں تھا۔ کیونکہ جب مجھے گرفتار کرنے آئے تھے تو میں اٹھ کر سامنے کھڑا ہو گیا کہ اگر گولی مارنی ہے تو میرے سینے پر مارو۔ یہ تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے کہا گیا کہ آپ معافی مانگ لیں آپ کو آزاد کر دیا جائے گا۔ بھٹو نے معافی کیوں نہیں مانگی؟ کیونکہ سیاستدان اور لیڈر اپنے آپ کو کسی صورت تاریخ کے سامنے ذلیل نہیں کرتا۔ جیل میں جنرل ضیاالحق اپنے جرنیلوں کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے۔ وہ تین گھنٹہ تک میری منتیں کرتے رہے کہ بھٹو کے حوالے سے صرف آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ بھٹو نے آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا یہ دیکھیں آپ کے خلاف بھٹو نے فائیلیں بنا رکھی ہیں۔ ہم آپ کے لئے وہ کچھ کریں گے جو بھٹو صاحب نے آپ کے لئے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ میں نے پوچھا میرا کام کیا ہو گا۔ انہوں نے کہا بھٹو کو سیاسی طور پر تباہ کرنا ہے۔ میں نے جنرل ضیاالحق سے کہا سر آپ نے غلط آدمی کو چن لیا۔ جنرل ضیانے کہا آپ نے حلقہ نمبر 6کے الیکشن میں بھٹو کو شکست دی۔ میں نے کہا اس وقت بھٹو صاحب بادشاہ تھے، میری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ میں نے بادشاہ سے ٹکر لی تھی ۔ پنجاب کی لوگوں کی نفسیات ہے کہ اگر آپ کسی طاقتور سے ٹکر لیں تو وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر میں آپ کا ساتھ دوں اور بھٹو سے ہی ٹکر لوں تو میں بھٹو کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسرا لوگ مجھے غدار کہیں گے کہ دیکھو بھٹو نے اسے بیٹا کہا ،اسے گورنر اور چیف منسٹر بنایا آج یہ بھٹو کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ میں کسی کو دھوکہ نہیںدے سکتا۔ اسکے بعد انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ بھٹو ارر مجھے پھانسی دی جائے۔ میرے حوالے سے طفیل احمد نے جنرل ضیا سے کہا تھا کہ بھٹو کے ساتھ کھر کوبھی پھانسی دو ورنہ یہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ زندہ کر لے گا کھر دوسرا بھٹو ہے۔ ہمیں ریلیز کرنے ضیاء الحق اپنے دو جرنیلوں جیلانی اور ملک کے ساتھ جیل آئے۔ ضیاء نے بھٹو کہا ’’سر میں بہت معذرت چاہتا ہوں آپ کو تکلیف ہو ئی مگر یہ میری مجبوری تھی۔ فوج کا مجھ پر بہت دبائو تھا۔ میں آپ کو چھوڑنے آیا ہوں۔ میں نے الیکشن کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر آپ کو الیکشن میں فتح ہو گی تو میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو آپ کو سلیوٹ کرے گا۔ بھٹو صاحب بہت غصے میں تھے انہوں نے کہا جنرل صاحب آپ نے آئین کا آرٹیکل چھ پڑھا ہے؟ جنرل ضیاء کا رنگ پیلا ہو گیا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے بھٹو صاحب سے کہا سر آپ نے جنرل ضیاء الحق کو یہ بات کہہ کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے۔ وہ سمجھ گیا ہے کہ آپ اسے نہیں چھوڑیں گے۔ جو شخص اب پاور میں ہے وہ کیسے آپ کو اجازت دے گا کہ آپ دوبارہ پاور میں آئیں ۔ میرے فوج میں تعلقات ہیں میں نے فوج‘ ملک اور بھٹو صاحب کے Intrest میں یہ سوچا کہ کسی صورت بھٹو کی فوج سے صلح ہو جائے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی دی جائے۔ فوج سے ہمارے مذاکرات کامیاب ہوگئے اور فیصلہ ہو گیا کہ بھٹو صاحب کو ایک سال کے لئے بیرون ملک بھیج دیا جائے گا اور اس میں شیخ زید ، کرنل قذافی اور بھی کچھ لوگ گارنٹر تھے۔ ہم 25-20 ایم این اے نے دستخط کئے اگر بھٹو نے وعدہ خلافی کی تو ہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ بھٹو صاحب نے کراچی سے لاہور آئے انہوں نے فاروق لغاری کی کوٹھی کی چھت پر چڑھ کر ہجوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے فوج کے خلاف تقریر کی۔ میں سمجھتا تھا کہ بھٹو صاحب یہ ٹھیک نہیں کر رہے ہیں میں پیچھے سے ان کی قمیض کھینچ رہاتھا۔ تو بھٹو صاحب نے وہیں مجمعے کے سامنے کہہ دیا ابھی میرے کچھ دوست ہیں جو میری قمیض کھینچ رہے ہیں اور کہتے ہیں میں جرنیلوں کے خلاف بات نہ کروں۔ جلسہ ختم ہوا میں گھر آ گیا مجھے ایوان صدر سے فون آیا کھر صاحب ہم آ پ کو کہتے تھے کہ بھٹو صاحب کی بات کا ہم اعتبار نہیں کر سکتے۔ اب ہمارا آپ کا معاہدہ ختم۔ کھر صاحب اب ہم آپ کو بھی تحفظ نہیں دے سکتے۔ اب فیصلہ ہوا کہ آپ کواور بھٹو کو پھانسی دی جائے ۔ میں نے ان سے کہا آپ میری مدد کریں۔ انہوں نے جنرل ضیا سے کہا کھر بھٹو کے خلاف ثبوت دینے کو تیا ر ہے مگر ان کو ثبوت لینے لندن جانا ہوگا میرے واپس آنے کی گارنٹی مصطفیٰ جتوئی نے دی میں نے جتوئی صاحب اور اپنے دوست جرنیلوں کو بتا دیا تھا کہ میں واپس نہیں آوں گا۔ ضیاء نے مجھے لندن سے واپس بلوانے کے لیے برطانیہ گورنمنٹ کو اپروچ کیا۔ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے مجھے اغوا کروانے کا منصوبہ بنایا۔ میرا ایک دوست کے بیٹے انیس کو دو ملین پائونڈ دینے کا لاچ دیا گیا۔ میرا ڈپلومیٹک پاسپورٹ بنا یا گیا تھا۔ فوج اور خفیہ ایجنسی میں میرے دوستوں نے مجھے بتا دیا۔ میں انکا یہ منصوبہ بھی ناکام بنا دیا۔ پھر میں نے ایک فوج سے جنرل ضیا الحق کی حکومت کو کُو کرانے کی کوشش کی ۔ کُو کی کوشش کرنے والوں میں جنرل رفیع اعظم بھی شامل تھے۔ وہ کُو کامیاب نہ ہوا۔‘‘