کراچی کی معروف ترین شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر دس محرم الحرام کے مرکزی جلوس پر خودکش حملے کے نتیجے میں چالیس سے زائد افراد جاں بحق اور سو سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ پاکستان میں ایسے ”سانحے“ اب ”روٹین میٹر“ ہیں۔ اب تو کسی روز کسی دھماکے، کسی خودکش حملے کی اطلاع یا خبر نہ ملے تو یوں محسوس ہوتا ہے ہم ”بیرون ملک“ ہیں۔ پاکستان کو پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں نے اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں عزت محفوظ رہی نہ زندگی۔ کیا دنیا میں ہم کسی کو فخر سے بتا سکتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں؟ دنیا پوچھتی ہے وہ ”پاکستانی“ جو اپنے ہی ملک کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں؟ چلیں مان لیتے ہیں خودکش دھماکے کرنے والے مسلمان یا پاکستانی نہیں ہو سکتے مگر مگر خودکش دھماکوں کے بعد جائے سانحہ پر لوٹ مار کرنے والے، زخمیوں کی جیبوں سے پیسے نکالنے والے، ان کی کلائیوں سے گھڑیاں اور چوڑیاں اتارنے والے بھی پاکستانی نہیں ہوتے؟ کچھ سیاسی جماعتوں یا رہنماﺅں کا موقف بالکل درست ہے کہ خودکش دھماکے کرنے والے غیرملکی ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہے غیرملکی ”ملکیوں“ کی مدد اور تعاون کے بغیر اپنے مشن میں کامیاب ہو جائیں؟ بیرونی دشمن ”اندرونی دشمنوں“ کی سرپرستی کے بغیر ناکارہ ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی حکمران بیرونی دشمنوں کی مداخلت کا اعتراف نہیں کرتے اور اندرونی دشمنوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پھر معاملات کیسے درست ہونگے؟!
گزشتہ دنوں ایک ”خفیہ بریفنگ“ میں کچھ قلم کاروں کو غیرملکی مداخلت کے شواہد فراہم کئے گئے تو عرض کیا اس ضمن میں قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ میزبانوں کا مو¿قف تھا حکومتیں کس لئے ہوتی ہیں؟ سارے کام ہم نے کرنے ہیں تو پھر سیاسی حکمرانوں کا کیا کام ہے؟ عرض کیا لوٹ مار کریں یا دہشت گردی کے پے درپے واقعات پر محکمہ اطلاعات کے بنے بنائے بیانات جاری کر دیں یا پھر زیادہ سے زیادہ سے زیادہ دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کے لئے تشریف لے جائیں اور ان کے زخموں پر چند ہزار روپوں کا نمک چھڑک کے ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اپنے تمام تر فرائض وہ پوری لگن اور دیانت داری سے سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ جو ملک میں ”بلیک واٹر“ کا سیلاب آیا ہوا ہے اسے روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ”ضمانتی وزیر داخلہ“ فرماتے ہیں ”ملک میں بلیک واٹر کی موجودگی ثابت ہو جائے تو میں استعفیٰ دے دوں گا“۔ کسی کی جرا¿ت ہے ان سے استعفیٰ لے؟ ان سے تو اتنا پوچھنے کی جرا¿ت بھی کوئی کوئی کر سکتا ہے کہ حضور یہ لاہور اسلام آباد اور بعض دوسرے شہروں کی شاہراہوں پر طویل و عریض انتہائی قیمتی ”بے نمبری گاڑیاں“ کس کی دندناتی پھرتی ہیں؟ ان گاڑیوں کو پکڑنے کی جرا¿ت کیوں نہیں کی جاتی؟ پکڑ لی جائیں تو فوراً سے پہلے چھوڑ کیوں دیا جاتا ہے؟ امریکی پاکستانی قانون سے بالاتر ہیں؟ کسی عام پاکستانی حتیٰ کہ پاکستانی وزیر داخلہ یا وزیر خارجہ ٹائپ حکمرانوں کو امریکہ میں ایسے دندنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے جیسے امریکی یہاں دندناتے پھرتے ہیں؟ ایسی آزادی تو انہیں اپنے ملک میں بھی میسر نہیں ہو گی جیسی یہاں ہے۔ پھر کون سا امریکی ہے جو یہاں آئے اور اس کا دل چاہے کہ واپس چلا جائے؟ پہلے وہ صرف ہمارے حکمرانوں کو خریدتے تھے اب ہماری بستیاں بھی خریدتے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں اب تک کتنے گھر وہ خرید چکے ہیں، کتنوں کے سودے جاری ہیں؟ یہ ”پناہ گاہیں“ کس مقصد کیلئے تیار کی جا رہی ہیں؟ کیا وزیر داخلہ جناب رحمان ملک یہ سارے حقائق عوام کو بتانا پسند کریں گے؟ جی نہیں۔ اس لئے کہ عوام کے ساتھ ان کا تعلق کیا ہے؟ سو ان سے کوئی یہ توقع کرے کہ ان کے اقدامات ملک و قوم کے مفاد میں ہونگے تو اس سے بڑھ کر بے وقوف کوئی نہیں!
اسلام آباد میں غیرقانونی یا مشکوک سرگرمیوں میں ملوث امریکیوں کو پکڑ کر چھوڑ دینا اہم نہیں کہ وہاں حکومت نام کی جو شے تھوڑی بہت دکھائی دیتی ہے۔ امریکی غلامی میں ویسے ہی جتی ہوئی ہے جیسے سابقہ حکومت جتی ہوئی تھی۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ لاہور میں امریکیوں کی غیرقانونی یا مشکوک سرگرمیوں کا نوٹس بھی نہیں لیا جا رہا۔ شاید اس لئے کہ کہیں امریکہ بہادر صوبے کی حکومت کو بھی کوئی ”نوٹس“ جاری نہ کر دے تو پھر وفاقی اور صوبائی حکومت میں فرق کیا رہا؟ امریکی غلامی میں دونوں کا رویہ دونوں کا کردار ملتا جلتا نہیں؟ لاہور میں اب تک امریکیوں کی کئی مشکوک گاڑیاں پکڑی گئیں جنہیں پولیس کو مک مکا کئے بغیر چھوڑنا پڑا۔ پولیس کے لئے یہ یقیناً ایک ”ٹریجڈی“ ہے اور عوام کے لئے باعث حیرت ہے کہ اسلام آباد میں بعض امریکیوں کی مشکوک سرگرمیوں کا ملبہ وفاقی حکومت پر ڈالنے والوں کے اپنے گریبان بھی اب چاک دکھائی دینے لگے ہیں حالانکہ یہ بڑے فخر سے کہتے تھے ہم نے امریکی صدر کے دس ٹیلی فونوں کے باوجود ملک کو ایٹی طاقت بنا دیا تھا اور تحقیق کاروں کے مطابق یہ بات درست بھی تھی۔ یوم عاشور پر برپا ہونے والے سانحہ کراچی پر ہم یقیناً پھر یہی کہیں گے کہ یہ مسلمان ہو سکتے ہیں نہ پاکستانی.... مگر ہمیں یہ بھی پھر کہنا چاہئے کہ کچھ ”مسلمانوں اور پاکستانیوں“ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی ایک لاش بھی نہیں گرا سکتا۔ لاشوں کا ملبہ صرف غیرملکیوں پر ڈالنے سے بات نہیں بنے گی۔ ایک دہشت گردی کے بعد دوسری دہشت گردی کراچی میں یہ ہوئی کہ سینکڑوں دکانوں اور کاروباری مراکز کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ چلیں دہشت گردوں کا سراغ لگانا سرکار کی صلاحیتوں سے بالاتر ہے مگر یہ دکانیں اور کاروباری مراکز جلانے والے کون تھے؟ اگر ہماری پیاری سرکار انہیں سزا دینے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی تو اسے چاہئے سپریم کورٹ کی خواہش کے مطابق قرض وصول کرنے کے لئے سیاستدانوں کے گھروں کے باہر ”طبلہ و تالی پروگرام“ شروع کر دے۔ کوئی تو ایسا کام ہو جس کے بارے میں عوام دعوے سے کہہ سکیں ہماری سرکار اس میں خصوصی مہارت رکھتی ہے!
ابھی چار روز قبل ”بادشاہ سلامت‘ کراچی میں مختلف اجلاسوں کی صدارت کرتے پائے گئے۔ ان میں زیادہ تر اجلاس اقتدار کو مضبوط بنانے کے ضمن میں ہی منعقد ہوئے ہونگے۔ کاش وہ ایسے اجلاسوں کی صدارت بھی کر لیا کریں جو خالصتاً ملک و قوم کو مضبوط بنانے کے حوالے سے منعقد ہوتے ہیں (اگر ہوتے ہیں تو)۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال کبھی باعث اطمینان نہیں رہی اور بدقسمتی سے کراچی کو کوئی ایسا حکمران نہیں ملا جو یہاں امن و امان کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی صلاحیتیں رکھتا یا آزماتا ہو۔ سندھ کے وزیر داخلہ اور وفاق کے وزیر داخلہ صلاحیتوں اور حرکتوں کے اعتبار سے قریبی رشتہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ سچ ان سے بولا نہیں جاتا اور جھوٹ بولنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ سندھ کے وزیر داخلہ تو زہر اگلنے میں بھی ثانی نہیں رکھتے۔ فرماتے ہیں ”بی بی کی شہادت پر زرداری صاحب ”پاکستان نہ کھپے“ کا نعرہ لگاتے تو ہم پاکستان توڑ دیتے“۔ بادشاہ سلامت کو اپنے صوبے کے وزیر داخلہ کا یہ ”اندازِ خوشامد“ یقیناً بڑا پسند آیا ہو گا۔ ملک و قوم کو ٹوٹ کر چاہنے والا کوئی سربراہ مملکت ہوتا تو ایسی ملک دشمن سوچ رکھنے والے وزیر کو پارٹی سے ہی نہیں ملک سے نکال دینے کا حکم جاری کرتا۔ جناب ذوالفقار مرزا کی خدمت میں عرض ہے ”بادشاہ سلامت“ کی خوشامد ضرور کریں کہ یہ ان کی ”وزارتی مجبوری“ ہے مگر کچھ توجہ سندھ خصوصاً کراچی میں امن و امان کی طرف بھی دیں کہ انہیں تنخواہ اور مراعات سرکاری خزانے سے ملتی ہیں ایوان صدر سے نہیں!
گزشتہ دنوں ایک ”خفیہ بریفنگ“ میں کچھ قلم کاروں کو غیرملکی مداخلت کے شواہد فراہم کئے گئے تو عرض کیا اس ضمن میں قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ میزبانوں کا مو¿قف تھا حکومتیں کس لئے ہوتی ہیں؟ سارے کام ہم نے کرنے ہیں تو پھر سیاسی حکمرانوں کا کیا کام ہے؟ عرض کیا لوٹ مار کریں یا دہشت گردی کے پے درپے واقعات پر محکمہ اطلاعات کے بنے بنائے بیانات جاری کر دیں یا پھر زیادہ سے زیادہ سے زیادہ دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کے لئے تشریف لے جائیں اور ان کے زخموں پر چند ہزار روپوں کا نمک چھڑک کے ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اپنے تمام تر فرائض وہ پوری لگن اور دیانت داری سے سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ جو ملک میں ”بلیک واٹر“ کا سیلاب آیا ہوا ہے اسے روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ”ضمانتی وزیر داخلہ“ فرماتے ہیں ”ملک میں بلیک واٹر کی موجودگی ثابت ہو جائے تو میں استعفیٰ دے دوں گا“۔ کسی کی جرا¿ت ہے ان سے استعفیٰ لے؟ ان سے تو اتنا پوچھنے کی جرا¿ت بھی کوئی کوئی کر سکتا ہے کہ حضور یہ لاہور اسلام آباد اور بعض دوسرے شہروں کی شاہراہوں پر طویل و عریض انتہائی قیمتی ”بے نمبری گاڑیاں“ کس کی دندناتی پھرتی ہیں؟ ان گاڑیوں کو پکڑنے کی جرا¿ت کیوں نہیں کی جاتی؟ پکڑ لی جائیں تو فوراً سے پہلے چھوڑ کیوں دیا جاتا ہے؟ امریکی پاکستانی قانون سے بالاتر ہیں؟ کسی عام پاکستانی حتیٰ کہ پاکستانی وزیر داخلہ یا وزیر خارجہ ٹائپ حکمرانوں کو امریکہ میں ایسے دندنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے جیسے امریکی یہاں دندناتے پھرتے ہیں؟ ایسی آزادی تو انہیں اپنے ملک میں بھی میسر نہیں ہو گی جیسی یہاں ہے۔ پھر کون سا امریکی ہے جو یہاں آئے اور اس کا دل چاہے کہ واپس چلا جائے؟ پہلے وہ صرف ہمارے حکمرانوں کو خریدتے تھے اب ہماری بستیاں بھی خریدتے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں اب تک کتنے گھر وہ خرید چکے ہیں، کتنوں کے سودے جاری ہیں؟ یہ ”پناہ گاہیں“ کس مقصد کیلئے تیار کی جا رہی ہیں؟ کیا وزیر داخلہ جناب رحمان ملک یہ سارے حقائق عوام کو بتانا پسند کریں گے؟ جی نہیں۔ اس لئے کہ عوام کے ساتھ ان کا تعلق کیا ہے؟ سو ان سے کوئی یہ توقع کرے کہ ان کے اقدامات ملک و قوم کے مفاد میں ہونگے تو اس سے بڑھ کر بے وقوف کوئی نہیں!
اسلام آباد میں غیرقانونی یا مشکوک سرگرمیوں میں ملوث امریکیوں کو پکڑ کر چھوڑ دینا اہم نہیں کہ وہاں حکومت نام کی جو شے تھوڑی بہت دکھائی دیتی ہے۔ امریکی غلامی میں ویسے ہی جتی ہوئی ہے جیسے سابقہ حکومت جتی ہوئی تھی۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ لاہور میں امریکیوں کی غیرقانونی یا مشکوک سرگرمیوں کا نوٹس بھی نہیں لیا جا رہا۔ شاید اس لئے کہ کہیں امریکہ بہادر صوبے کی حکومت کو بھی کوئی ”نوٹس“ جاری نہ کر دے تو پھر وفاقی اور صوبائی حکومت میں فرق کیا رہا؟ امریکی غلامی میں دونوں کا رویہ دونوں کا کردار ملتا جلتا نہیں؟ لاہور میں اب تک امریکیوں کی کئی مشکوک گاڑیاں پکڑی گئیں جنہیں پولیس کو مک مکا کئے بغیر چھوڑنا پڑا۔ پولیس کے لئے یہ یقیناً ایک ”ٹریجڈی“ ہے اور عوام کے لئے باعث حیرت ہے کہ اسلام آباد میں بعض امریکیوں کی مشکوک سرگرمیوں کا ملبہ وفاقی حکومت پر ڈالنے والوں کے اپنے گریبان بھی اب چاک دکھائی دینے لگے ہیں حالانکہ یہ بڑے فخر سے کہتے تھے ہم نے امریکی صدر کے دس ٹیلی فونوں کے باوجود ملک کو ایٹی طاقت بنا دیا تھا اور تحقیق کاروں کے مطابق یہ بات درست بھی تھی۔ یوم عاشور پر برپا ہونے والے سانحہ کراچی پر ہم یقیناً پھر یہی کہیں گے کہ یہ مسلمان ہو سکتے ہیں نہ پاکستانی.... مگر ہمیں یہ بھی پھر کہنا چاہئے کہ کچھ ”مسلمانوں اور پاکستانیوں“ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی ایک لاش بھی نہیں گرا سکتا۔ لاشوں کا ملبہ صرف غیرملکیوں پر ڈالنے سے بات نہیں بنے گی۔ ایک دہشت گردی کے بعد دوسری دہشت گردی کراچی میں یہ ہوئی کہ سینکڑوں دکانوں اور کاروباری مراکز کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ چلیں دہشت گردوں کا سراغ لگانا سرکار کی صلاحیتوں سے بالاتر ہے مگر یہ دکانیں اور کاروباری مراکز جلانے والے کون تھے؟ اگر ہماری پیاری سرکار انہیں سزا دینے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی تو اسے چاہئے سپریم کورٹ کی خواہش کے مطابق قرض وصول کرنے کے لئے سیاستدانوں کے گھروں کے باہر ”طبلہ و تالی پروگرام“ شروع کر دے۔ کوئی تو ایسا کام ہو جس کے بارے میں عوام دعوے سے کہہ سکیں ہماری سرکار اس میں خصوصی مہارت رکھتی ہے!
ابھی چار روز قبل ”بادشاہ سلامت‘ کراچی میں مختلف اجلاسوں کی صدارت کرتے پائے گئے۔ ان میں زیادہ تر اجلاس اقتدار کو مضبوط بنانے کے ضمن میں ہی منعقد ہوئے ہونگے۔ کاش وہ ایسے اجلاسوں کی صدارت بھی کر لیا کریں جو خالصتاً ملک و قوم کو مضبوط بنانے کے حوالے سے منعقد ہوتے ہیں (اگر ہوتے ہیں تو)۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال کبھی باعث اطمینان نہیں رہی اور بدقسمتی سے کراچی کو کوئی ایسا حکمران نہیں ملا جو یہاں امن و امان کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی صلاحیتیں رکھتا یا آزماتا ہو۔ سندھ کے وزیر داخلہ اور وفاق کے وزیر داخلہ صلاحیتوں اور حرکتوں کے اعتبار سے قریبی رشتہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ سچ ان سے بولا نہیں جاتا اور جھوٹ بولنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ سندھ کے وزیر داخلہ تو زہر اگلنے میں بھی ثانی نہیں رکھتے۔ فرماتے ہیں ”بی بی کی شہادت پر زرداری صاحب ”پاکستان نہ کھپے“ کا نعرہ لگاتے تو ہم پاکستان توڑ دیتے“۔ بادشاہ سلامت کو اپنے صوبے کے وزیر داخلہ کا یہ ”اندازِ خوشامد“ یقیناً بڑا پسند آیا ہو گا۔ ملک و قوم کو ٹوٹ کر چاہنے والا کوئی سربراہ مملکت ہوتا تو ایسی ملک دشمن سوچ رکھنے والے وزیر کو پارٹی سے ہی نہیں ملک سے نکال دینے کا حکم جاری کرتا۔ جناب ذوالفقار مرزا کی خدمت میں عرض ہے ”بادشاہ سلامت“ کی خوشامد ضرور کریں کہ یہ ان کی ”وزارتی مجبوری“ ہے مگر کچھ توجہ سندھ خصوصاً کراچی میں امن و امان کی طرف بھی دیں کہ انہیں تنخواہ اور مراعات سرکاری خزانے سے ملتی ہیں ایوان صدر سے نہیں!