آج مجید نظامی زندہ ہوتے تو...

Feb 04, 2025

مطلوب وڑائچ

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان دہشت گردی کے چنگل میں پھنستا اور اس کی تباہی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔کل کے واقعے نے پاکستان اور پاکستانیوں کو مزید لرزا کے رکھ دیا ہے۔بلوچستان میں سکیورٹی فورسز نے کارروائیاں کرتے ہوئے 23 دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا جبکہ مقابلے میں ایف سی کے 18 بہادر جوانوں نے جام شہادت بھی نوش کیا۔
 ہرنائی میں ایک آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کو موثر طریقے سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 11 دہشت گرد جہنم واصل ہو گئے گو کہ 11 شت گرد بھی مارے گئے ہیں لیکن سیکیورٹی فورسز کے 18 سپوت بھی شہید ہوئے ہیں۔ہماری افواج مکمل طور پر پروفیشنل ہیں۔ عالمی سطح پر ان کی مہارت تسلیم شدہ ہے۔کل کی دہشت گردی سب سے بڑا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی اسی طرح کے دہشت گردی کے کئی مرتبہ بھیانک اور ہولناک واقعات ہو چکے ہیں۔یہاں پہ سوال بنتا ہے کہ کیا دہشت گرد ہماری دنیا میں مانی جانے والی پیشہ ور سیکیورٹی فورسز سے جتنے یا اس سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں؟ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سیکورٹی فورسز کا نقصان اس لیے ہوتا ہے کہ یہ اس دشمن کے بالکل سامنے ہوتی ہیں جو سامنے موجود نہیں ہوتا۔وہ سیکیورٹی فورسز کی نقل و حمل کے انتظار میں رہتا ہے۔یا پھر فورسز کی چوکیوں پر ان کی رہائش گاہوں پر اچانک دھاوا بول دیتا ہے۔نہ صرف اس کا مقابلہ بلکہ اس کا خاتمہ کرنے کے لیے پاکستانیوں کو ایک قوم بننا ہوگا۔ایسی کاروائیاں سہولت کاری کے بغیر ہو ہی نہیں سکتیں۔باقی کوئی بھی جنگ ہے دہشت گردی ہے یا تخریب کاری ہے۔وہ صرف افواج ہی نہیں جیت سکتی اس کے لیے قوم کا پاک فوج کے شانہ بشانہ اور اس کی پشت پر ہونا ضروری ہے۔ آج پاک فوج اور عوام کے مابین کسی قسم کی کوئی خلیج تو کیا دراڑ بھی نہیں ہے اس کے باوجود بھی دہشت گرد سانحات اور المیات برپا کر جاتے ہیں۔ایسا کیوں ہے ان عوامل کا ہماری حکومت اداروں اور سٹیک ہولڈرز کو جائزہ لینا ہوگا۔
افغان پناہ گزینوں میں سے کئی دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتے ہیں اور کئی تو خود بھی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔پاکستان میں موجود قانونی یا غیر قانونی ہر ایک افغان کو اس کے وطن بھجوانے کی ضرورت ہے۔اس کے بعد دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی نشاندہی مزید آسان ہو سکتی ہے۔آج دہشت گردی پاکستان کا سب سے بڑے مسئلے کی صورت میں سر اٹھائے ہوئے ہے پھن پھیلائے ہوئے ہے۔اداروں اور حکومت کی طرف سے یک نکاتی ایجنڈا اس کے خاتمے کا طے کر لینا چاہیے۔دہشت گردی ہو یا بگڑی ہوئی معاشی صورتحال ہو۔
 اس کے لیے سیاسی استحکام اولین ضرورت اور ناگزیر ہوتی ہے۔کیا آج سیاسی استحکام ہے؟ اس کا جواب بہت بڑی نہیں کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے۔تحریک انصاف الزام لگاتی ہے کہ آٹھ فروری کو اس کا مینڈیٹ چوری ہوا تھا۔وہ اس کی واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔تحریک انصاف کو سب سے بڑا غصہ تو 10 اپریل 2022 کو عدم اعتماد کے ذریعے اس کی حکومت کو ختم کرنے کا ہے۔ پھر اس پر نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔تحریک انصاف اس سے انکاری ہے۔اس کی طرف سے بار بار احتجاج کی کال دی جاتی رہی ہے۔ایسے ہی کا ل 25 نومبر 2024 کو بھی دی گئی۔جس میں تحریک انصاف کے بقول سیدھی گولیاں مار کر اس کے 16 ورکرز کو ہلاک کر دیا گیا۔حکومت کی طرف سے موقف ہے کہ ایک بھی گولی نہیں چلی اور کوئی بھی بندہ جاں بحق نہیں ہوا۔تحریک انصاف حکومت کے دوران اور اس کے بعد اپوزیشن میں رہتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنے سے انکاری رہی ہے۔لیکن اس کی طرف سے اب خود حکومت سے مذاکرات کی بات کی گئی۔کمیٹیاں بن گئیں اسی دوران جیل سے بانی تحریک انصاف عمران خان کا مذاکرات کے خاتمے کا حکم آگیا۔ تحریک انصاف کی طرف سے دو مطالبات سامنے رکھے گئے ایک تو نو مئی اور 25 نومبر کے معاملات کی تحقیق کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ تھا۔ دوسرا تحریک انصاف کے گرفتار لیڈروں اور کارکنوں کی رہائی کی بات کی گئی تھی۔حکومت کی طرف سے دونوں معاملات کی مخالفت نہیں کی گئی، جواب دینے کے لیے جو وقت مانگا گیا تھا اس سے چند دن پہلے ہی تحریک انصاف نے مذاکرات کا باب بند کر دیا۔تحریک انصاف کی طرف سے کہا گیا کہ حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔پاکستان کی سیاسی صورتحال پہلے ہی مخدوش ہے۔ مذاکرات کی ٹیبل الٹی تو سیاسی عدم استحکام مزید اضافہ ہو گیا۔
تحریک انصاف اور حکومتی پارٹیاں ایک دوسرے کو سرخ آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔سیاسی اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔یہ جتنے بھی آگے چلے جائیں کبھی بھی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں پہنچتے۔میڈیئیشن کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے نوابزادہ نصر اللہ خان اور مجید نظامی جیسا میڈیئیٹر آج نظر نہیں آرہا۔ آج مجھے مجید نظامی صاحب خصوصی طور یاد آرہے ہیں۔ آج اگر وہ دنیا میں ہوتے تو یقینی طور پر حکومتی پارٹیوں اور تحریک انصاف کو اول تو مذاکرات کی میز سے اٹھنے ہی نہ دیتے اگر اٹھ بھی جاتے تو دوبارہ ان کو لا کے بٹھا دیتے۔
مجید نظامی کے ہر سٹیک ہولڈر ہر سیاسی پارٹی سے بہتر تعلقات رہے ہیں۔ہر کوئی ان کی عزت کرتا اور بات مانتا تھا۔مسلم لیگ نون کی قیادت ان کے زیادہ قریب رہی جب کہ پیپلز پارٹی بھی ان سے دور نہیں تھی۔انہوں نے آصف علی زرداری کو ”مردِ حُر“ کا خطاب دیا تھا۔پنجاب کے گورنر ہاوس سے آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے سب سے پہلے مجید نظامی سے رابطہ کیا تھا۔1999 ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے میاں نواز شریف پر مجید نظامی صاحب ہی نے دباو ڈالا تاکہ میاں نواز شریف جو متذبذب تھے تذبذب سے نکلے اور ایٹمی دھماکے کر دیے۔مجید نظامی کے جماعت اسلامی کے ساتھ بھی گرم جوشی پر مبنی مراسم رہے ہیں۔پاکستان میں اگر کسی کے خلاف تھے تو ان گروہوں کے خلاف تھے جو علیحدگی کی بات کرتے ہیں۔
پاک فوج کو جب بھی ضرورت پڑی مجید نظامی وطن عزیز کے عظیم تر مفاد میں صف اول میں موجود دیکھے گئے۔ 1999 میں جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا، تو اس دوران پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے جنرل پرویز مشرف نے مجید نظامی کے ذریعے جماعت اسلامی کو احتجاج کرنے کے لیے پیغام بھیجا تھا۔جنرل مشرف اس وقت فوج کے سربراہ تھے اور انہوں نے پاکستانی سیاست میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ ان کے لیے یہ اہم تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں کسی قسم کا نرم رویہ اپنانے پر داخلی سطح پر مخالفت کا سامنا نہ ہو، خاص طور پر ایسی جماعتوں سے جو بھارت کے ساتھ مفاہمت کی مخالفت کر رہی تھیں۔مجید نظامی جو کہ ایک معروف صحافی اور نوائے وقت کے ایڈیٹر تھے، ان کے ذریعے جماعت اسلامی کو احتجاجی سرگرمیاں چلانے کے لیے کہا گیا۔ جماعت اسلامی اس پیغام کو قبول کرتے ہوئے بھارت کے وزیراعظم کے دورے کے موقع پر احتجاجی مظاہرے کرنے لگ گئی۔ ان مظاہروں کا مقصد پاکستان کے مفادات کے خلاف بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت یا تعلقات کی بہتری کی کوششوں کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔
جنرل مشرف کی یہ حکمت عملی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تھی کہ اگر حکومت اور فوج بھارت کے ساتھ کسی امن معاہدے یا مذاکرات کی جانب بڑھیں، تو انہیں اس پر شدید سیاسی دباو کا سامنا نہ ہو۔ اس لیے مجید نظامی اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنے کا یہ اقدام داخلی سیاست میں توازن رکھنے کے لیے ایک ضروری قدم تھا۔یہ واقعہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے جہاں فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوششوں کا مظاہرہ ہوا، اور اس سے پاکستان میں بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے مختلف سیاسی و سماجی رائے کا بھی پتہ چلتا ہے۔
  مجید نظامی آج زندہ ہوتے تو یقینی طور پر تمام سٹیک ہولڈرز کو آج کی صورتحال کی ناگزیریت کو دیکھتے ہوئے ایک ٹیبل پر لا بٹھاتے۔ان میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہے یا ادارے سب مجید نظامی کی بات پر لبیک کہتے۔ آج سیاسی استحکام کی کسی بھی دور کے مقابلے میں زیادہ ضرورت ہے۔معیشت کی مضبوطی کے لیے بھی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھی۔

مزیدخبریں