ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
یہ بات کافی دیر بعد سمجھ آئی کہ سچ بولنا ظاہر قاتل ہے۔ ایمانداری نری تباہی بربادی ہے اور محنت جدوجہد بالکل بیکار چیز ہے ۔پوری زندگی یہ سارا کچھ کر کے خواہشوں کا خون کر کے اور خود کو حق سچ کے لیے تیار کے کیا ملتا ہے محض ایک ٹھینگا۔ میرے جیسے لوگوں کے مقابلے میں وہ لوگ انتہا درجے کے کامیاب، خوشحال اور شہرت دولت عزت کی مسند پر جلوہ گر ہیں جو خوش آمد ،جاپلوسی اور جی حضوری کے فن میں یکتا ہیں ۔ میری ریسرچ کہتی ہے کہ اس میں کسی قسم کی جان نہیں مارنی پڑتی۔آپ کو سب کچھ نہایت آسانی سے مل جاتا ہے۔ میری ریسرچ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں عزت ،محبت اور تعریف کی بھوک اپنی اشتہا¶ں پر ہے۔ لوگ تعریفوں کے شدید بھوکے ہوتے ہیں ۔یہ بھوک نفسیات کی اس درجہ بندی کو جڑ سے ا کھاڑ پھینکتی ہے جس میں پہلے نمبر پر پیاس دوسرے نمبر پر غذا اور تیسرے نمبر پر جنس کی بھوک ہے۔ لیکن عملی زندگی میں پہلے نمبر پر دولت کی بھوک ہے، دوسرے نمبر پر جب چا پلوسی کی بھوک ہے۔ چاپلوسی کیا ہے، کسی کی خوشامد اور تعریف یعنی جس آدمی کی چاپلوسی کی جاتی ہے اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں وہ حقیقت میں اس کے اندر نہیں ہوتے۔مثلاً ایک آدمی باس ہے ،کسی ادارے کا سربراہ ہے، کسی دکان کا مالک ہے ،چیئرمین ڈائریکٹر ،پرنسپل ہے ،صدر وزیراعظم ،وزیراعلی ،وزیر، سنیٹر، ایم این اے، ایم پی اے ہے ،ان لوگوں سے ہر آدمی کو کام پڑتا ہے۔ اس لیے ان کی خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ اپنے باس کی ہر جائز ناجائز میں ہاںملانی پڑتی ہے۔ ایسے افراد خیر خواہ ،فرمانبرداری، وفادار کبھی نہیں ہوتے بلکہ یہ لوگ ابن الوقت اور موقع شناس اور مطلب پرست کہلاتے ہیں ۔ان کے پاس چاپلوسی کی کنجی ہوتی ہے جو ہر بڑے سے بڑے تالے کو کھول دیتی ہے ۔پاکستان میں کرپشن کے بعد سب سے زیادہ ترقی چاپلوسی نے کی ہے ۔چاپلوسی کرنے والے انتہا درجے کے بے حمیت ،بے شرم اور بے ضمیر ہوتے ہیں ۔ان میں صلاحیتوں کا سخت فقدان ہوتا ہے ۔نکمے کام چور ،ہڈ حرام اور نالائق ترین ہوتے ہیں۔اپنی نالائقیوں ،کمزوریوں اور بدمالیوں کو چھپانے کے لیے ہر وقت زبان میٹھی چُھری کی طرح رکھتے ہیں۔ ان کے لہجے میں منافقت اور خباثت پوشیدہ ہوتی ہے۔جن سے فائدے کی امید ہوتی ہے اُن کی جھوٹی تعریفیں کرتے ان کی زبان نہیں تھکتی۔جن لوگوں کو یہ اپنے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں یا جن سے عہدے اور مال بٹورتے ہیں یہ اُن کے سامنے فرمانبرداری اور وفاداری کا کھیل کھیلتے ہیں۔ میں جب 1999 ءمیں اس وقت کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پر تنقید کرتی تھی، تو ایک دن مجھے کلثوم نواز شریف صاحبہ نے کہا کہ آپ کے ساتھی تو نواز شریف شہبازشریف کی بہت تعریفیں کرتے ہیں۔ لیکن آپ اُن کے کاموں پر اکثر تنقید کرتی ہیں اور غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہیں ۔میں نے جواب دیا کہ دراصل میں چاہتی ہوں یہ لوگ کم از کم دو دہائیوں تک حکومت کریں اور جو غلطیاں کوتاہےاں اُن سے دانستہ یانادانستہ ہو جاتی ہے یہ اس کی اصلاح کر لیں تاکہ ان کا دور حکومت مثالی کہلائے ۔جو لوگ ان کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہیں اور سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں وہ شریف برادران کے خیر خواہ ہرگز نہیں ہیں ۔غلطیاں سدھارنے سے اقتدار کے دن بڑھتے ہیں۔ کلثوم نواز میرا جواب سن کر میری گرویدہ ہو گئیں۔ بعد ازاں خود میاں شہباز شریف نے مجھے جدہ سے خط لکھ کر اس بات کا اعتراف کیا۔لیکن آج پیکا ایکٹ آنے کے بعد ترجیحات بدل گئی ہیں ۔ہماری اپنی صفحوں میں کالی بھیڑوں کی تعداد کم نہیں۔ موجودہ حکومت کو اچھا لگتا ہے کہ ان کے بارے میں اچھی خبریں ،اچھی رپورٹیں اور اچھی باتیں کی جائےں۔ رجائیت پسندانہ نقطہ نظر سے دیکھیں تو حکومت کافی Optimist لگتی ہے ۔موجودہ حکومت میں Pasimismبالکل نہیں ہے۔آپ دیکھیں کہ مجھ جیسی بھی کھرا سچ بولنے والی کہہ رہی ہے کہ واقعی سچائی کڑوی کسیلی ہوتی ہے۔ سچائی سے ہمیشہ تعلقات میں خرابی آتی ہے ۔سچ بولنے سے کچھ ہاتھ نہیں آتا بلکہ آدمی ہر وقت کٹہرے میں کھڑا رہتا ہے ۔ارکان اسمبلی کی تنخواہ سوا پانچ لاکھ کر دی گئی ہے ۔ساڑھے پانچ لاکھ رہائش مینٹیننس، پٹرول، بجلی ،گیس پانی، فون کے بلوں میں خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے علاج مالجے، غیر ملکی دورے، ہیلی کاپٹر اور جہازوں کی سیروں کھانے پینے پر بھی لگ بھگ پانچ سے 10لاکھ لگ جاتے ہیں ۔ان میں سے سبھی ارکان اسمبلی کسی نہ کسی کمیٹی کے رکن ہیں تو اس کا اعزازیہ بھی الگ ملتا ہے۔ اتوار کو یا دو چار دن زیادہ اسمبلی چلی جائے تو اس کی مد میں بھی ہزاروں ملتے ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری، مشیر ترجمان وزیر مملکت یا وزیر بن جائیں تو الگ سے کئی لاکھ روپے ملتے ہیں یعنی ایک عام سے رکن اسمبلی سے لے کر وزیر بننے تک انہیں ماہوار 25 سے 50 لاکھ قومی خزانے سے دئیے جاتے ہیں ۔ترقیاتی بجٹ میں سے جو لاکھوں کروڑوں کھایا جاتا ہے وہ الگ ہے۔مگر غریب پینشنر جو لگ بھگ 40 سال محنت مشقت کر کے بڑھاپے میں 60، 70 ہزار روپے لیتے ہیں اس پر بھی حکومت کٹوتیاں کرتی ہے اور ٹیکس لگاتی ہے بلکہ دھمکاتی ہے۔ لیکن حکومت اچھا کرتی ہے اب حکومت جن ارکان اسمبلی پر ماہوار کروڑ روپیہ خرچ کرتی ہے وہ سارے ملا کر پانچ ہزار افراد ہیں جبکہ پینشنر جو 10 ہزار روپے سے پینشن شروع کرتے ہیں ان کی تعداد تقریباً تیس لاکھ سے کم ہے ۔حکومت اچھا کرتی ہے کہ اس طرح ملک سے غریبوں کا خاتمہ کر رہی ہے۔ توقع ہے کہ اس حکومت کے خاتمے تک پاکستان میں تمام غریبوں کابھی خاتمہ ہو جائے گا حکو۔مت بہت ز ندہ دل ہے سب سے زیادہ پیسہ کھیلوں پر خرچ کرتی ہے دوسرے ملکوں سے منتیں کر کر کے ٹیمیں بلواتی ہے ۔اگر وہ بھی نہ آئیں تو پنجاب قلندر ۔ملتان سلطان ،کوئیٹہ گلیڈییٹر،اسلام آباد یونائٹڈ کو آپس میں کھلا کر کھیل کود کر لیتی ہے اور قومی خزانہ ہلکا کر دیتی ہے۔قذافی اسٹیڈیم کی تزین و آرائش پ کڑوڑوں روپے خرچ کر کے پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ وہ زندہ دل اور شاہ خرچ قوم ہے۔ اب کون کہتا ہے کہ پنجاب میں دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہی ۔ کیا سکولوں کے سینکڑوں بچوں کو ملک پیک نہیں دیے جا رہے، کیا لڑکے لڑکیوں کو موٹر سائیکلیں اور سکوٹیاں نہیں دی جا رہیں۔ ہماری اہم شہروں پر کیا رات دن چراغاں نہیں ہو رہے ۔پرانی سڑی اور ٹوٹی پھوٹی ریڑیاں پھینک کر ہر دل عزیز،خوبصورت اورذہین وزیراعلی نے سٹائلش ریڑیاں دے کر پنجاب کے حسن کو چار چاند نہیں لگائے ۔وزیراعظم شہباز شریف کو دیکھیں اتنے سال بیچارے کینسر سے لڑتے رہے لیکن اُف تک نہیں کی ،اس ملک کی خاطر بیماری میں بھی رات دن خدمت میں لگے رہتے ہیں ۔اس ملک کی خاطر اپنی بیماری کو پس پشت ڈال کر انہوں نے دور دراز ممالک کے غیر ملکی دورے نہیں کیے ۔وہ تو ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف برداری تقریب میں بھی مائنس س16ٹمپریچر میں وائٹ ہا¶س جانا چاہتے تھے تاکہ امریکہ سے تعلقات اور زیادہ اچھے ہو جائیں اور ملک میں ڈالر آئیں۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو کسی نے بتایا کہ شہباز شریف اتنی سردی برداشت نہیں کر سکتے ۔ہمارے وزیراعظم جدی پشتی کھرب پتی ہیں لیکن اپنی قوم سے محبت کا عالم دیکھیں کہ اپنی قوم کی خاطر ہر ملک سے قرض امداد چند ے صدقے بھی مانگ کر آتے ہیں۔ اپنے ملک کے لیے شہباز شریف نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔انہوں نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ریاست کو بچایا ہے۔ صلے میں انہیں ذمہ داریوں سے بھری وزارت عظمی ہی تو ملی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کو ہی دیکھ لیں نانی دادی بننے کے بعد توگو ڈے گٹوں میں درد بیٹھ جاتا ہے ۔نانی دادیاں ہر وقت اپنی بیماریوں کو روتی ہیں لیکن ماشاءا للہ ہماری وزیراعلیٰ اتنی صحت مند حسین تر و تازہ، خوش اخلاق اور خوش لباس ہےں کہ وہ ساری نوجوان نسل کی آئیڈیل بن گئی ہیں۔ اتنی سمارٹ خوبصورت خوش آواز، ویل ڈریس اور فریش وزیراعلیٰ ہیں کہ اس پوری دنیا میں کوئی ہو ہی نہیں سکتی بلکہ آپ تعریف کنگال کر دیکھ لیں تو بھی اتنی سٹائلش وزیراعلیٰ نہیں ملے گی ۔اصل میں ہماری قوم ہی قنوطی دقیانوسی اور مایوسی سے بھری ہوئی ہے ورنہ ایسے وزیراعظم ،وزیراعلیٰ وزراءاور مشیر پوری دنیا میں کہیں نہیں ملیں گے جنہوں نے مہنگائی ایک سال سے کم مدت میں 80 فیصد کم کر دی ہے۔ اپنی ذہانت سے قوم کی بھلائی کے لیے 11 ماہ میں 11 درجن ٹیکس لگائے ہیں جو اتنے قرض و مسائل مصائب اور مخالفت کے باوجود ہر وقت مسکراتے ہیں ۔یہ تو ہماری انتہا درجے کی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں ایسے خوش لباس ،خوش شکل ،خوش قسمت ،خوش مزاج اور خوش گلو حکمران ملے ہیں۔اگر آپ وزیراعظم سے گانے کی فرمائش کریں تو وہ فورا ً اکیلے نہ جانا ،ہمیں چھوڑ کر تم“سنانے لگیں گے۔ جس میں تمام اداروں کے چیف ،صدر ،فضل الرحمن ،ایم کیو ایم اور سب کے لیے ایک پیغام ہوتا ہے اور مریم نواز نے بھی اتنی سریلی آواز کی بدولت ہی اہل پنجاب کا دل نظر دماغ وقت سبھی کچھ تو چرا لیا ہے۔