حکمت عملی میں نئی تبدیلی  پروفیسر بشردوست بام خیل 

Feb 04, 2025

پروفیسر بشردوست بام خیل

  کچھ عرصہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ تحریک انصاف کا ہر وار ہر حملہ ہر تیر اپنا نشانہ خطا کر رہا ہے اور مخالفین انھیں کچلنے پسپا کرنے اور خاموش کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں . خان کے جانثاروں نے محمود غزنوی کی طرح مغربی اطراف سے مسلسل حملے بھی کئے لیکن انھیں کامیابی نصیب نہ ہوئی بلکہ یہ لوگ پسپا ہو کر اپنے زخم دیر تک چاٹتے رہے .کمزور ہو کر حکومت کے سامنے مذاکرات کی بھیک بھی ان لوگوں نے مانگی لیکن اس میدان میں بھی کامیابی جب نہ ملی تو طویل سوچ و بچار کے بعد اور اخری دفعہ حملہ اور'' زخمی شیرنی '' بشری بی بی کی مشاہدات و تجربات کی روشنی میں قیادت کی تبدیلی عمل میں لائی گئی اور جو لوگ اس جنگ کی کالی موت والی رات میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں بشری بی بی کے ڈال بنے تھے اور اس کے ساتھ اگے ہی اگے بڑھ رہے تھے ان میں موجودہ صوباءصدر جینید اکبر بھی تھے جو اس ڈراونی رات میں روشنی کا استعارہ بی بی کے لئے بنا تھا تو اسے لشکر کی قیادت سونپ دی گئی۔اب قیادت بدل گءہے مفاہمت کی جگہ مزید مزاحمت کی طرف تحریک انصاف قدم بڑھا چکی ہے اور پنجاب و خیبر پختونخواہ کی سرحد صوابی میں ایک دفعہ پھر اپنی صفیں سیدھی کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے جس میں صوبہ کی اہم شاہراہ کو بند کرنے صوبہ کو الگ تھلگ رکھنے کی بھی شاید اپشن ہو لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہو گا.اس وقت صوباءقیادت کی تبدیلی سے ائندہ کا نقشہ دیکھا جا سکتا ہے اور شاید یہ اس وجہ سے ہو کہ خود بشری بی بی نے فرنٹ پر جنید اکبر کو دیکھا ہے اور باقی قیادت کو بھی اس رات دیکھا ہے جب وہ اس کے احکامات کی اسی طرح فرمانبرداری نہیں کر رہے تھے اور جو بھی بشری بی بی کاحکم نہیں مانے گا وہ تحریک انصاف میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہو گا اور بی بی کی طاقت اثر و رسوخ کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب خان کے پاس بی بی کیخلاف شکایات گئیں توشکایت کنندہ بھی اس کی دشمنی کا نشانہ بنا اور ایسے سینگ پھنس گئے کہ اب تک پھنسے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں خان نے اپنا سب کچھ داو پر لگایا لیکن بی بی پر انچ نہ انے دیا.۔ وقت کم مقابلہ سخت اور اندرون و بیرون تحریک انصاف کے لئے ہر محاذ پر انتہاء مشکل جنگی حالات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ امریکہ کی رچرڈ گرنیل والی تیر کو ایک اور امریکی بزنس مین نے توڑ دیا ہے اور اس کا اثر ختم کر دیا ہے . تحریک کے اندر قیادت میں بھی ایک خلیج نظر ارہی ہے اور چئیرمین بیرسٹر گوہر ایک طرف خان کی بہنیں دوسری طرف اور خود خان بھی حالات پر گرفت رکھے ہیں لیکن بی بی کا اثر سب پر بھاری ہے اور جب وہ فیصلہ کرتی ہے تو سب کو حیران اور پریشان بھی کر دیتی ہے اور اب وہ ارام سے بیٹھنے والی ہر گز نہیں ہے کیونکہ سیاست کے کھیل میں اب اس کے منظور نظر کردار اسی کی ہدایات پر عمل کریں گے جو منہ توڑ ہوں گے. ریاست پاکستان کے لئے اورخاص کر موجودہ حکمرانوں کے لئے بھی حالات اب سازگار نہیں ہیں اور اب خان کی محبت میں وفاداری میں ایک اور جنگ کی ابتدا ہو رہی ہے جس کی قیادت بشری بی بی کے ہاتھ میں ہو گی اور اس دفعہ مفاہمت والی مزاحمت نہیں ہو گی بلکہ ڈرانے والی دل ہلانے دینے والی اور اقتدار کی کشتی کو ڈبونے والی مزاحمت ہوگی جس میں بقول مریم نواز اب یا ار ہو گا یا پار لیکن مزہ تب اتا جب بی بی خود اس نئی تحریک کی قیادت کرتی اور تحریک انصاف کے مرمٹنے والے جوشیلے جزباتی خان کے نام پر مر مٹنے والے نوجوان اس کے ساتھ ساتھ ہوتے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر اس دفعہ پھر مرکز و تحریک انصاف کی جنگ شروع ہو گئی تو اس میں سب سے زیادہ نقصان اسی صوبہ کے عوام کا ہو گا کیونکہ پہلے ہی سے یہ صوبہ امن و امان بے روزگاری لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے اور اب اگر یہ سیاسی جنگوں والی موسلادھار بارشیں شروع ہوئیں تو ہر چھت کی گرنے کی فکر ہو گی .ایسا لگ رہا ہے کہ سیاست کے اسمان پر کالے بادل نظر ارہے ہیں اور گرج چمک کے ساتھ ایک دفعہ پھر طوفانی بارشوں کی تصویر دکھاءدے رہی ہے جسمیں سب سے پہلے ضلع صوابی کی سرزمین پر ایک بڑا جلسہ ہو گا جس کی سٹیج سے للکارتی ہوئی اوازیں اسلام اباد تک پہنچے گی اور پھر اس کے بعد مزید اقدامات مرکزی حکومت کو گرانے ننگا کرنے کمزور کرنے اور طاقتور کا ہاتھ مروڑنے کی کوششیں ہوں گی جبکہ طاقتور بھی مختلف تراکبیں اور چالیں چل رہا ہے. فکر یہ ہے کہ اگر یہ مزاحمتی نئی تحریک کامیاب ہو گئی حکومت گر گئی طاقتور پیچھے ہٹ گئے اور خان باہر نکل کر ایک دفعہ پھر وزارت کی کرسی پر بیٹھ گئے تو بہت ہی اچھا ہو گا لیکن ڈر یہ ہے کہ اگر یہ تحریک کامیاب نہ ہوئی پسپائی ہوئی اور حکومت ایک دفعہ پھر کامیاب رہی تو پھر خان کا کیا ہو گا اور اس صوبہ کے عوام کا کیا ہو گا یہ انے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ہوائیں بتا رہی ہیں کہ یہاں مغرب کی طرف سے انے والی ہوائیں مرکز میں بیٹھے حکمرانوں کی نیندیں برباد کر رہا ہے اور یہاں پشاور سے بی بی بشری کے احکامات پر جب عمل ہو گا تو میدان سجے گا اور نتیجہ خیز ہو گا .اب قیادت بدل گئی ہے صوبہ کا اختیار جنید اکبر کے ہاتھ میں اگیا ہے جو خان کا مخلص وفادار سیاسی کارکن ہے اور جس کی قومی اسمبلی کی تقریر اج تک لوگوں کے کانوں میں گونج رہی ہے جسکا تعلق ملاکنڈ ڈویجن سے ہے اور جو طاقتور کی انکھوں میں انکھیں ڈال سکتا ہے اورجس نے صوبائی دارت سنبھالتے ہوئے خود کہا ہے کہ اب حکمت عملی مکمل طور پر تبدیل ہو گی اور ورکروں کو پیسے دینے کی ںجائے ورکرز خود پیسے جمع کر کے میدان کارزار و جلسے جلوسوں میں شریک ہوں گے.صوابی کا 8 فروری کا جلسہ مستقبل کا نقشہ بتا دے گا کہ اب تحریک انصاف کا موڈ جوش ولولہ اور اگے بڑھنے مزاحمت و مدافعت کی طاقت بتا دے گا اور نئے صوبائی صدر جنید اکبر کا بھی امتحان ہو گا کہ وہ وزیر اعلی امین گنڈاپور کی نسبت اتنی اہم جگہ اور وقت پر کتنا بڑا پرجوش پرزور جلسہ کرتا ہے اور اس میں اپنی تندوتیز بلندو بالا تقریر سے مرکز و مخالفین کو کتنا ڈراتے ہیں یہ پتہ جلسہ کے بعد چلے گا لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس وقت تحریک انصاف کی کشتی بھنور میں بری طرح پھنس چکی ہے اور خان اس کشتی میں بری طرح بںدھے ہوئے ہیں .شاید جنید اکبر اکا انتخاب کر کے بشری بی بی نے باقی میدان سیاست کے تحریک انصاف کے چوٹی کے سیاستدانوں رہنماﺅں کو سائیڈ لائن کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے جس میں ضلع صوابی کے سابق سپیکر اسد قیصرسرفہرست ہیں.

مزیدخبریں