وزیر اعظم کی مجوزہ اے پی سی اور قومی مفاد کے تقاضے
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اہم قومی چیلنجز پر تمام قومی سیاسی قائدین کو ایک میز پر بٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے -7 فروری کو آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد کی جا رہی ہے۔ جس میں شرکت کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت پوری سیاسی قیادت کو دعوت دی گئی ہے۔ وزیر اعظم آفس کے مطابق اسلام آباد میں -7 فروری کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لیے تمام سیاسی قائدین کو باضابطہ دعوت دے دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر ایاز صادق نے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک سے رابطہ کیا اور وزیر اعظم کی طرف سے عمران خان کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت پہنچائی۔ ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو اپنی جماعت کے نامزد نمائندوں کے ناموں سے آگاہ کرنے کی درخواست کی۔ پی ٹی آئی رہنمائوں نے دعوت نامہ ملنے کے بعد سینئر قیادت سے مشاورت کرنے کا عندیہ دیا ہے جس کے بعدحکومت کو حتمی فیصلے سے آگاہ کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے آل پارٹیز کانفرنس ایسے وقت میں طلب کی ہے جب ملک ایک بار پھر بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان کو اس صورت حال سے نکالنا کسی ایک سیاسی جماعت یا ادارے کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوںگی۔ خصوصاً ملک میں دہشت گردی کی تازہ کارروائی جس میں 100 سے زائد افراد لقمۂ اجل بن گئے، کے بعد اس عفریت کا سر کچلنے اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اجتماعی دانش درکار ہو گی کہ اب معاملہ کسی ایک جماعت یا فردِ واحد کے بس سے باہر ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم نے اسی ضرورت کے پیشِ نظر آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ملک کی تمام سیاسی قیادت ایک جگہ سر جوڑ کر بیٹھے اور درپیش چیلنجز سے عہدہ برآء ہونے کے لیے باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے اور اتفاقِ رائے سے ایسی حکمتِ عملی مرتب کی جائے کہ جس پر عمل درآمد کرکے ملک اس امتحان میں سرخرو ہو سکے اور امن و امان یقینی بنایا جا سکے۔
ملک کو اس وقت جن بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی اور امن و امان کی مخدوش ہوتی صورتِ حال خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان جس قسم کی محاذ آرائی، رسہ کشی اور گالم گلوچ، الزام تراشی اور طعن و تشنیع جاری ہے اس نے ملک کی ساری فضا کو مکدّر بنا دیا ہے۔ گروہی و جماعتی مفادات قومی اور اجتماعی مفادات پر غالب آ چکے ہیں۔ نفرت کی سیاست نے سیاسی قیادتوں کے بعد سیاسی کارکنوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ برداشت ، رواداری اور تحمل و بردباری کے اوصاف ہماری سیاست میں عنقا ہو چکے ہیں۔ خود سیاسی قائدین ایک دوسرے سے بات کرنا اور ایک میز پر بیٹھنا تو کجا ایک دوسرے کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ تعصب سے آلودہ ذہنوں میں نفرت کی جو آگ دہک رہی ہے اس کی تپش ہر شعبۂ زندگی میں محسوس کی جا رہی ہے۔ اس سیاسی دشمنی کے باعث ملک کی معاشی صورتِ حال بھی ناگفتہ ہو گئی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں امن و امان کی صورتِ حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ انسانی جانوں کا تحفظ بھی ممکن نہیں رہا۔ اداروں میں سیاسی مداخلت کی بنا پر ان کی ساکھ بھی دائو پر لگ چکی ہے۔ یہ ادارے انتظامی طور پر مفلوج اور اپنی افادیت کھو چکے ہیں جس کے نتیجے میں ریاست کمزور ہو گئی ہے اور اس کی رٹ پورے ملک میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کی معاشی صورتِ حال ہماری ناقص پلاننگ اور غلط ترجیحات کا منطقی نتیجہ ہے۔ کسی بھی حکومت نے ملکی وسائل کو دیانتداری اور احساس ِ ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اس کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول کو ہی مطمعٔ نظر بنائے رکھا۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سودی نظامِ معیشت نے ہمارے معاشی ڈھانچے کی بنیاد ہلا دی ہے ۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کے کمزور ترین معیشت کے حامل ممالک میں ہو رہا ہے۔ ترقی پذیر کے درجے سے گر کر ہم پسماندہ ممالک کی سطح پر آ گِرے ہیں۔
زرِمبادلہ کے ذخائر گزشتہ دس سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 3.08 ارب ڈالر تک آ گئے ہیں جو ایک ایٹمی ملک کے لیے انتہائی شرمناک ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس پریشان کن صورتِ حال کے باوجود ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات غریب عوام ہی کو قربانی کا بکرا بنانے پر بضد ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے اربوں ڈالر بیرونی ممالک میں جمع ہیں لیکن ملک و قوم کا درد انہیں ایک پیسہ بھی اس ملک میں لانے کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوا ۔ان کی دولت اس ملک اور اس کے عوام کے لیے نہیں ہے۔ یہ ملک صرف ان کی باجگزار ریاست ہے جس پر یہ حکمرانی کے لیے آتے ہیں اور حکومت سے محرومی کے بعد واپس اپنے غیر ملکی ٹھکانوں میں دادِ عیش دینے چلے جاتے ہیں۔ آج ملک کے جو حالات دکھائی دے رہے ہیں وہ بلاشبہ ہمارے انہی حکمرانوں ہی کے غلط طرزِ حکمرانی کا نتیجہ ہیں جنہیں ان کی رعایا بھگت رہی ہے۔ غنیمت ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بدترین حالات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سیاسی قیادتوں سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے تاکہ خرابی کو دور کرنے کی کوئی صورت نکالی جا سکے۔ موجودہ حالات میں اس نوع کی کانفرنس کا انعقاد نہ صرف وقت کی ناگزیر ضرورت بلکہ قومی تقاضا بھی ہے۔ اب یہ تمام سیاسی قائدین کی آئینی ، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قومی فریضے کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لیے ذاتی مفادات اور انائوں کو ایک طرف رکھ کر مل بیٹھیں اور باہم مشاورت سے کوئی قابلِ عمل حل تلاش کریں۔