دہشت گردی کا مکمل تدارک پاک افغان تعاون سے ہی ممکن ہے
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ پشاور دھماکے کی تحقیقات ہو رہی ہیں، افغان عبوری حکومت اس حوالے سے تعاون کرے۔ انہوں نے باور کرایا کہ ہم الزام تراشیوں پر یقین نہیں رکھتے۔ کسی ملک کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ دوسری جانب افغانستان کی طالبان حکومت نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے چیلنجز کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خاں متقی نے اس سلسلہ میں جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ افغانستان کی سرزمین حملوں میں استعمال نہیں ہو رہی۔ افغانستان میں جنگ اور بم حملے ہوتے رہے ہیں تاہم کسی خودکش حملے میں چھت اڑتے اور درجنوں افراد جاں بحق ہوتے نہیں دیکھے۔
ہمارے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ جس افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ہم بیرونی دنیا سے تعاون اور فاقہ کشی کا شکار افغان عوام کی مدد و بحالی کی اپیل کرتے رہے ہیں، اسی افغانستان کی سرزمین سے ہمارے ملک میں دہشت گرد ہی نہیں افغان بارڈر فورسز کے اہلکار بھی جتھہ بند ہو کر ہماری چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں پر بمباری کرتے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری قومی خارجہ پالیسی ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہی نہیں۔ ہم نے افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائین اتحادی کا کردار ادا کیا جس کے ردعمل میں نیٹو فورسز کی مزاحمت کرنے والے افغان جنگجوئوں اور طالبان کے مختلف گروہوں نے ہماری سرزمین پر دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر دیا اور جب افغانستان میں امن کے لیے ہماری کوششوں کے نتیجہ میں طالبان کی کابل کے اقتدار میں واپسی ہوئی تو ان کی طرف سے بھی ہمیں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا اور طالبان حکومت نے پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے لیے کالعدم ٹی ٹی پی کو کھلی چھوٹ دے دی۔ اسی کے نتیجہ میں پاکستان گزشتہ ڈیڑھ سال سے بدترین دہشت گردی کو بھگت رہا ہے جس میں اب تک سینکڑوں پاکستانی باشندے شہید اور سینکڑوں ہی زخمی ہو کر مستقل اپاہج بن چکے ہیں۔ اس تناظر میں افغان وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال نہیں ہو رہی، آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ہی مترادف ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ علاقائی امن و استحکام پاکستان اور افغانستان دونوں کی یکساں ضرورت ہے جس کے لیے باہمی تعاون سے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے جڑ سے اکھاڑنے اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار کو پہنچانے کی ضرورت ہے۔ چار روز قبل پشاور کی پولیس لائن مسجد میں ننگِ انسانیت دہشت گردی کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے ایک گروپ نے قبول کی ہے تو اس کی کڑیاں تحریک طالبان افغانستان سے ہی ملتی ہیں جس کے ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں۔ کابل انتظامیہ کو اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اپنی اور پاکستان کی سرزمین پر مستقل قیام امن کے لیے باہمی تعاون بروئے کار لانا چاہیے ورنہ یہاں امن و استحکام کی منزل کبھی حاصل نہیں ہو پائے گی۔