ہفتہ ، 12 رجب المرجب1444ھ، 4 فروری 2023ء

لاڑکانہ میں سیلاب زدگان کے امدادی چاول کی فروخت کا دھندا
صرف لاڑکانہ ہی کیا پورے ملک میں جہاں جہاں سیلاب نے تباہی مچائی ہے سیلاب زدگان میں تقسیم کے لیے بھیجا جانے والا سامان بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس کی تقسیم کے ذمہ دار اور ان کے کارندے یہ سامان بازار میں فروخت کے ذمہ دار ہیں ہے کوئی مائی کا لعل جو ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں۔ کہیں سیلاب زدگان کے خیمے ان میں تقسیم کرنے کی بجائے من پسند مدارس میں تقسیم کئے گئے جو ایک جلسے میں گیلی زمین پر بچھا کر سامعین کے کپڑے گیلے ہونے سے بچانے میں معاون ثابت ہوئے۔ کسی نے ایکشن لیا، نہیں۔ یہ اس صوبے میں ہوا جہاں سیلاب نے اچانک تباہی مچائی ورنہ وہاں تو بارش ہی سالانہ 5 سینٹی میٹر پڑتی ہے۔ اس بار ابر جو برسا تو قیامت کر دی۔ منہ زور پہاڑی ندی نالوں نے دور ویرانوں میں قائم بستیاں اُجاڑ ڈالیں اور امدادی سامان سیاستدان ایم این اے اور ایم پی ایز نے کھا لیا۔ اسی طرح سندھ میں اربوں روپے کے نقصان کا رونا رونے والوں کے کرتوت بھی دیکھ لیں انہوں نے کس طرح امدادی سامان سیلاب متاثرین میں تقسیم کرنے کی بجائے آپس میں تقسیم کر لیا۔ غریب متاثرین منہ دیکھتے رہ گئے۔ اس طرح پنجاب اور خیبر پی کے میں بھی ہوا ہو گا۔ دیکھیں ان کی رپورٹ کب آتی ہے۔ کیا متاثرین سیلاب کے امداد کے لیے بھیجی جانے والی خوراک غبن کرنا مارکیٹ میں فروخت کرنا جرم نہیں۔ پہلے ہی دنیا ہمیں نفرت بھری نظروں سے دیکھتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رو دھو کے جن غریبوں کے نام پر خیرات لیتے ہیں وہ خیرات بھی ہماری اشرافیہ اور سیاستدان خود کھا کر ڈکار بھی نہیں مارتے۔
شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (نون) کے سینئر نائب صدر کے عہدے سے مستعفی
مریم نواز کی آمد کے بعد مسلم لیگ کے سخت گیر گروپ کی طرف سے جو شادیانے بجائے جا رہے تھے اب اس کے ساتھ ساتھ کہیں سے شہنائی کی دکھ بھری آواز بھی بلند ہونے لگی ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں ’’جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے‘‘
مریم نواز شریف کو مسلم لیگ (نون) کی چیف آرگنائزر بننے کے بعد سب سے پہلے شاہد خاقان عباسی نے نہایت احترام کے ساتھ سینئر نائب صدر کے عہدے سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیا ہے کہ وہ اب یہ عہدہ سنبھال نہیں سکتے۔ مریم نواز کو اطمینان کے ساتھ کھلا میدان دے رہے ہیں تاکہ وہ اپنی حکمتِ عملی کے مطابق کام کریں۔ اب اسے کیا کہا جا سکتا ہے۔ گرچہ یہ ایک اچھے سیاستدان کی طرف سے اچھی سیاست کا ثبوت ہے کہ اختلاف رائے کے نام پر پارٹی اور پارٹی رہنمائوں پر کیچڑ اچھالنے سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے نہایت تحمل سے سیدھی راہ اپنائی ہے۔ اس سے بہرحال مسلم لیگ (نون) کو مری اور اس کے مضافات میں دھچکا تو لگے گا۔ ویسے ہی جیسے ایبٹ آباد و گرد و نواح میں کیپٹن (ر) صفدر کے سیاست میں ان ہونے کے باوجود لگا ہے۔ اب ایسے ہی ایک اور موثر توانا آواز مشاہد حسین کی بھی سنائی دی جا رہی ہے جو پارٹی موقف سے ہٹ کر سیاسی صورتحال پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے فوری الیکشن کی طرف جانے کی بات کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مہنگائی، بے روزگاری، معاشی ابتری اور خالی خزانے کے ساتھ مسلم لیگ (نون) کو الیکشن لڑنا مشکل ہو جائے گا۔ اب دیکھنا ہے ان کی آواز نقار خانے میں کون سُنتا ہے۔ پارٹی میں رہتے ہوئے اپنی بات ایمانداری سے سامنے لانا بہت اچھا عمل ہے۔ اب دیکھنا ہے مریم نواز ان نئے بحرانوں سے کیسے دامن بچا کر چلتی ہیں تاکہ سیاسی ہرج بھی نہ ہو اور ان کا کام بھی چلتا رہے۔ یہی ان کی کامیابی کی راہ سامنے لائے گا ورنہ تسبیح ٹوٹے تو کافی دانے خودبخود بکھرتے چلے جاتے ہیں۔
’’جانتے ہیں نامعلوم کون ہیں‘‘ پشاور میں پولیس اہلکاروں کا احتجاجی مظاہرہ
پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے وحشیانہ خودکش دھماکے نے جس طرح پھولوں کے شہر کو کملا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی یاد مدتوں اس کے باسیوں کو خون کے آنسو رلاتی رہے گی۔ کیسے کیسے جوان، دہشت ، وحشت اور بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ ظالموں نے خدا کے گھر کو بھی نہ بخشا اس سے پہلے بھی یہ ظالم درندے پشاور میں مخالف مسلک کی مسجد کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب و مسلک نہیں ہوتا وہ جن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جن کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ہر واردات کے بعد ان نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے ہم خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کب تک ہم جوانوں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے۔ اب تو پشاور میں پولیس اہلکاروں نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ جس میں نعرے لگائے گئے کہ ہم جانتے ہیں نامعلوم کون ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر وہ ان نامعلوم افراد کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتے انہیں کس نے روکا ہے۔ اگر پولیس ایمانداری سے کام کرے تو کوئی بدبخت دہشت گرد اپنے مقررہ ہدف تک نہیں پہنچ سکتا۔ اسے راستے میں ہی واصل جہنم کیا جا سکتا ہے۔ مگر کیا کریں ہمارے اپنے اندر ہی بہت سی خامیاں ہیں بہت سے سہولت کار اور لاپرواہ چھپے بیٹھے ہیں۔ خفیہ کیمروں سے دیکھ لیں وردی والے سے کوئی پوچھتا نہیں شناخت تک طلب نہیں کی جاتی یوں یہ دہشت گرد کامیاب رہتے ہیں۔ اب سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا ہو گا۔ کسی سے رعایت نہیں کرنا ہو گی۔ جان لینے سے قبل یہ حملہ آور کی جان لینا ہو گی۔ نامعلوم کون ہیں اگر علم ہے تو ان کے اڈوں، سہولت کاروں پر پوری طاقت سے ہاتھ ڈالیں انہیں جڑ سے اکھاڑیں۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ ورنہ ہم یونہی مرتے رہیں گے۔
چینی کمپنی نے 9 کروڑ ڈالر نوٹوں کا پہاڑ بنا کر ملازمین میں بانٹ دیا
اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ کمپنی نے فیصلہ کیا کہ اچھا کام کرنے والے بہتر کارکردگی دکھانے والے ملازمین کو میڈل یا سرٹیفکیٹ دینے کی بجائے انہیں نقد انعام دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ کمپنی کے اس فیصلے سے تو ملازمین کی مراد بر آئی۔ انہیں جھولیاں بھر بھر کر انعام کی رقم دی گئی۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اس طرح یہ رقم ملازمین کے کام بھی آئے گی۔ ورنہ خالی میڈل اور سرٹیفکیٹس سے بھلا کیا ہوتا ہے۔ ان سے پیٹ تو نہیں بھرتا۔ رقم تو پھر بھی کسی نہ کسی کام آئے گی۔ پاکستان میں بھی سرکاری و غیر سرکاری ادارے اپنے محنتی ملازمین کو نوازتے ہیں مگر زبانی کلامی ستائش سے یا پھر وہی ایک عدد اعلیٰ کارکردگی یا حسن کارکردگی کا سرٹیفکیٹ دے کر ان کے حق میں تالیاں بجائی جاتی ہیں۔ جس سے ان کا چند گرام خون تو بڑھتا ہے مگر پیٹ اور جیب نہیں بھرتی۔ اب ہمارے دوست ملک نے ملازمین میں خوش ہو کر جو نقد رقم بطور انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ قابلِ تعریف ہی نہیں قابل عمل بھی بنایا جائے تو بات بنے۔ اس وقت جو صورتحال ہے اس میں تمام سرکاری و نجی ملازمین میں اس داد و دہش کا اچھا اثر پڑے گا اور وہ زیادہ سے زیادہ دل لگا کر کام کریں گے۔ رہی بات کام چور ملازمین کی تو انہیں بھی احساس ہو گا کہ وہ بھی خواب غفلت سے بیدار ہوں اور نقد انعام حاصل کرنے کے لیے جی جان سے کام کریں۔ ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے۔ اچھے خواب دیکھنے میں کوئی ہرج نہیں تو جناب ہم بھی دیکھتے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کبھی خواب بھی حقیقت میں بدل جاتے ہیں تو پھر آئیں مل جل کر ایک حسین مستقبل کا خواب دیکھیں۔